Aaj News

ہفتہ, اپريل 20, 2024  
11 Shawwal 1445  

صدر ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں،سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 04 جون 2020 10:24am
فائل فوٹو

اسلام آباد:سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ شکایت صدر کو بھیجنے کی بجائے اے آر یو یونٹ کو پذیرائی کیوں دی؟،صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 10رکنی فل بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر  سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

 وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ  عدالت نے سوالات سے مجھے بہت معاونت فراہم کی ، 27 ایسے قانونی نکات ہیں جن پر دلائل دوں گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ  عدالت کے سوال ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں ،  عدالت نے اے آر یو ، یونٹ کے کردار اور قانونی سوال کئے ہیں،  شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کی بجائے اے آر یو یونٹ کو پذیرائی کیوں دی؟۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت کے سوالوں پر بھی آؤں گا ،  پہلے مجھے حقائق بیان کرنے دیں اس میں مقدمے کو سمجھانے میں آسانی ہو گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ  صدر مملکت اور وزیراعظم کی وکالت کون کر رہے ہیں ، جس پر فروغ نسیم

نے کہا کہ  صدر مملکت کی ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود اور وزیراعظم کی وکالت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کریں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم صاحب !آپ اپنے انداز سے دلائل دیں اور آگے بڑھیں ۔

جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ صدر مملکت نے ریفرنس کے مواد پر اپنی رائے کیسے بنائی، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ  صدر مملکت پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں،  وزیراعظم کرکٹر رہے اور سیاست کی، صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرتا ہے،  اس قسم کی سمریوں پر اسٹیڈیز اور متعلقہ وزارتوں سے رائے لی جاتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ  آرٹیکل 209 کے اختیارات بڑے منفرد ہیں،  صدر مملکت کا کردار جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے پر بڑا اہم ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ  آرٹیکل 209 محض ایک آرٹیکل نہیں ہے،  آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہے،  ریفرنس کے موادپر صدر کو اپنا ذہن اپلائی کرنا ہوتا ہے،  ریفرنس فائل کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے،  صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں، صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں،  صدر مملکت ایڈوائس پر ریفرنس کونسل کو بھجوانے کے پابند ہیں یہ غلط دلیل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم اے آر یو کے بارے میں ہمیں کچھ بتا دیں ،  اے آر یو کی انکوائری پر مواد صدر مملکت کے سامنے رکھا گیا۔

جسٹس منیب اختر نےکہا کہ  فروغ نسیم آپ کے پاس سوالوں کی قطار ہے جن کے جوابات دینے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ  صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے، یہ بڑا اہم سوال ہے پہلے دیگر اہم چیزوں کو ایڈریس کریں ۔

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ یہ بتا دیں کہ عدالت عظمی نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا ، جس پر فروغ نسیم نے بتایا کہ  اے آر یو رولز آف بزنس کے تحت بنایا گیا ۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ  اے آر یو کا قانون کے تحت بنے اداروں پر تھرڈ پارٹی اطلاق کیسے ہوسکتا ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ  میری یہ دلیل نہیں کہ عدالت کے حکم پر اے آر یو کو بنایا گیا، اثاثوں کو غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جانا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ  اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ  بیرون ملک سے لوٹے گئے اثاثے واپس لانا اے آر یو کے قیام کی وجہ بنی۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div