Aaj News

جمعرات, اپريل 25, 2024  
16 Shawwal 1445  

انتہا پسندی معاشرے میں ایک طرح سے موجود ہے: سینیٹ کمیٹی

پرتشدد رجحانات والے واقعات میں ملوث لوگوں کی عمریں زیادہ تر 19 سے 30 سال کی عمر کے درمیان رپورٹ ہوئی ہیں
اپ ڈیٹ 26 فروری 2022 01:52pm
جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کا ایک منظر۔ - ٹویٹر تصویر
جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کا ایک منظر۔ - ٹویٹر تصویر

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ارکان نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے اور ناخواندہ لوگوں میں ایک طرح سے موجود ہے، جبکہ خاص طور پر یہ نوجوانوں میں پائی جاتی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے سیکرٹری انعام اللہ خان نے اراکین کو بتایا کہ "سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے بہیمانہ قتل میں ملوث 130 مشتبہ افراد میں سے 120 کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں۔"

انعام اللہ خان نے مزید کہا کہ اس طرح کی مثال میان چنوں کے واقعہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے زیادہ تر 30 برس کی عمر کے مردوں پر مشتمل ایک پر تشدد ہجوم نے میاں چنوں میں مبینہ طور پر قرآنی صحیفے جلانے کے الزام میں ایک ذ ہنی معذور شخص کو مار کر ہلاک کر دیا۔

کمیٹی کے اجلاس کے آغاز میں اراکین نے میاں چنوں واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایسے واقعات کو معاشرے کی ذہنیت کی عکاسی قرار دیا۔ تاہم اجلاس میں یہ بات بھی منظر عام پر آئی کہ اس طرح کے پرتشدد رجحانات والے واقعات میں ملوث لوگوں کی عمریں زیادہ تر 19 سے 30 سال کی عمر کے درمیان رپورٹ ہوئی ہیں اور یہ لوگ زیادہ تر سوشل میڈیا فورمز سے متاثر ہوتے ہیں۔

سینیٹر ولید اقبال نے اجلاس کی صدارت کی جس میں سینیٹرز فلک ناز اور محمد طاہر بزنجو کے علاوہ وزارت انسانی حقوق کے اعلیٰ افسران اور اس کے متعلقہ محکموں اور ایجنسیوں کے افسران نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (آپریشنز) اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) میاں چنوں بھی موجود تھے۔

کمیٹی کے ارکین نے اس بات پر زور دیا کہ اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کی شراکت کے ساتھ حکمت عملی تیار کی جائے اور مذہبی فورمز کو اسلام کی حقیقی روح اور رواداری اور صبر کے موقف کو پھیلائیں۔

سینیٹر اقبال نے تجویز پیش کی کہ صدر، وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھا جائے تاکہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے سکیں۔

ایڈیشنل آئی جی صاحبزادہ شہزاد سلطان نے کمیٹی کے ممبران کو بتایا کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک 14 سے 15 پرتشدد ہجوم کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "یہ واحد معاملہ تھا جہاں پولیس پرتشدد ہجوم پر قابو پانے اور متوفی کو بچانے میں ناکام رہی۔

گزشتہ سالوں کے واقعات کے اعدادوشمار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2021 میں قرآنی صحیفوں کی بے حرمتی کے 77 مقدمات درج ہوئے، 2020 میں 83، 2019 میں 56، 2018 میں 68 اور 2017 میں 47 مقدمات درج ہوئے۔

Srilanka

Human Rights Watch

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div