Aaj News

جمعرات, اپريل 25, 2024  
16 Shawwal 1445  

بلدیہ فیکٹری میں آگ ایم کیو ایم نے لگائی، فیکٹری مالکان کے سنسنی خیز انکشافات

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2019 03:47pm
فائل فوٹو

کراچی:سانحہ بلدیہ کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، فیکٹری مالک نے اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کرادیا۔ جس میں فیکٹری مالکان کا کہان ہے کہ فیکتری کو آگ ایم کیوایم والوں نے لگائی۔

سانحہ بلدیہ کیس میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ اور شاہد بھائیلہ  نے دبئی قونصلیٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا۔

سماعت کے موقع پر مرکزی ملزم رحمان بھولا، زبیر چریا، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب شیخ اور ملزمان کے وکلاء بھی موجود تھے۔

فیکٹری مالکان کی جانب سے جے آئی ٹی کو ریکارڈ کرائے گئے بیان کی نقول عدالت میں پیش کی گئیں۔

اپنے بیان میں گواہ کا کہنا تھا کہ 2005 میں فیکٹری ملازم منصور نے زبیر عرف چریا کو فیکٹری کے فنیشنگ ڈپارٹمنٹ میں بھرتی کیا، زبیر چریا بلدیہ کے علاقے میں ایم کیو ایم  کے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کے چھوٹے بھائی کا گہرا دوست تھا۔

'رحمان بھولا نے کہا بھتے کے لیے حماد صدیقی سے رابطہ کرو'

 فیکٹری کے جنرل منیجر منصور نے ایم کیوایم کو 15 لاکھ روپے ماہانہ دینے پر رضا مند کیا لیکن تھوڑی دنوں بعد کہا گیا اب کروڑوں روپے بھتہ دینا پڑےگا۔ 12 جولائی 2012 کو اصغر بیگ کی جگہ رحمان بھولا کو بلدیہ کا سیکٹر انچارج لگایا گیا، ایک دن ہم فیکٹری سے نکل رہے تو رحمان بھولا نے روکا اور دھمکی دی کہ بھتے کے لیے حماد صدیقی سے رابطہ کرو۔

رحمان بھولا نے حماد صدیقی کی ایماء پر 25 کروڑ بھتہ اور فیکٹری میں حصہ مانگا

رحمان بھولا نے حماد صدیقی کی ایماء پر 25 کروڑ بھتہ اور فیکٹری میں حصہ مانگا۔ یہ سن کر ہم حیران رہ گئے ہم نے منصور کو بھتے کے معاملات دیکھنے کا کہا اور ایک کروڑ روپے دے کر معاملہ نمٹانے کا کہا۔ ایم کیوایم کی جانب سے مسلسل پریشان کیے جانے پر کاروبار بنگلہ دیش منتقل کرنے کے لیے وہاں کا دورہ کیا۔

'ایم کیوایم کارکنوں نے فیکٹری کا کنٹرول سنبھال لیا اور کسی کو اندر نہیں جانے دیا'

مالکان فیکٹری جانے والے روٹ اور گاڑیاں بھی تبدیل کرتےتھے، ان کے مطابق 11 ستمبر 2012 کو پہلے گودام میں آگ لگائی گئی، فائر بریگیڈ واقعہ کے  60 سے 90 منٹ کے بعد پہنچی۔

اس وقت کے سی پی ایل سی چیف احمد چنائے نے رشتہ دار کے ذریعے پیغام بھیجا، فیکٹری میں مزید رُکنا مناسب نہیں ہے تو ہم رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے، ہمارے جانے کے بعد ایم کیوایم کارکنوں نے فیکٹری کا کنٹرول سنبھالا اور کسی کو اندر نہیں جانے دیا گیا، 24 گھنٹوں میں ہمارے نام ای سی ایل میں شامل کردیے گئے۔

'ایم کیوایم کے دباؤ پرہمیں ولن اور اصلی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا'

فیکٹری مالکان کے مطابق چند دنوں بعد ایک  ملازم نے بتایا کہ جب آگ لگی تو زبیر چریا چار، پانچ اجنبی افراد کے ساتھ کینٹین میں بیٹھ کر چرس پی رہا تھا۔

 فیکٹری میں آتشزدگی کا مقدمہ رؤف صدیقی اور ایم کیوایم کے دباؤ پر ہمارے خلاف ہی درج کیا گیا۔ ہمیں ولن اور اصلی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا۔ ہم نے لاڑکانہ سے ضمانت حاصل کی اور پولیس کی تفتیش میں شامل ہوئے۔

مالکان نے بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کا ذمہ دار ایم کیوایم کو قرار دیا۔ اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے کیس کے لیے نعمت اللہ رندھاوا ایڈووکیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں، نعمت رندھاوا چند تاریخوں پر پیش بھی ہوئے بعد میں انہیں بھی قتل کردیا گیا۔

'ہمارے انکل کوتقریبا 70 دن تک اغواء رکھا گیا'

جون 2013 میں ہمارے انکل کو سائٹ ایریا سے اغواء کرلیا گیا۔ ہمارے انکل کوتقریباً 70 دن تک اغواء رکھا گیا، سی پی ایل سی کے سابق چیف احمد چنائے خود اس معاملے کو دیکھ رہے تھے، احمد چنائے نے ہمیں اغواء کاروں سے معاملات طے کرنے کا کہا، ہمارے انکل کو بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد رہا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں رضوان قریشی کی جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہوئی، جے آئی ٹی جس دن جمع ہوئی ہم اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے اور اہلخانہ کے ساتھ دبئی منتقل ہوگئے، 13 ستمبر کو احمد چنائے نے ہمارے قریبی رشتہ داروں کو کال کی اور کہا کہ ہم گورنر ہاؤس میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے  کردیں۔

'ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو معاوضہ دیں تمام چیزیں نارمل ہوجائیں گی'

احمد چنائے کے ذریعے ہمیں گورنر ہاؤس سے پیغام بھیجوایا گیا، جس میں کہا گیا کہ اگر ہم ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو معاوضہ دیں تو تمام چیزیں نارمل ہوجائیں گی۔ ایم کیوایم کے سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ نے ہم سے سینٹرل جیل میں ملاقات کی اور اپنی خدمات لینے کا کہا۔ ہم جب ضمانت پر رہا ہوئے تو ایم کیو ایم کی جانب سے ہم پر سخت دباؤ ڈالاگیا جس پر ہم نے ایم کیو ایم کے ذریعے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کیا۔

علی قادری اپنے آپ کو ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینئر کا قریبی ساتھی ہونے کا دعویٰ کرتا تھا، ہم نے علی قادری کے دیے ہوئے اکاؤنٹ نمبر میں پانچ کروڑ اور 98 لاکھ روپے جمع کرائے، ہم نے علی قادری سے پیسے تقسیم کرنے کی تاریخ معلوم کی جو آج تک نہیں بتائی گئی۔

یاد رہے 12 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں فیکٹری میں آتشزدگی میں ڈھائی سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔  تقریباً 7 سال ہوچکے ہیں لیکن اب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ فیکٹری میں زندہ جلنے والے افراد کے اہلخانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div