Aaj News

جمعہ, اپريل 19, 2024  
10 Shawwal 1445  

سُگھڑ مردوں کی مجبوریاں

اوّل تو آج کے دور میں خوب سیرت اور سُگھڑ بیگم کی تلاش بالکل ایسی ہی ہے جیسے کالی مسور میں کنکر تلاش کرنا۔
اپ ڈیٹ 23 اگست 2022 05:59pm

صبح سویرے چائے کی بھینی بھینی خوشبو کے ساتھ چھوٹی چھوٹی چُسکیوں کا مزہ لیتے ہوئے نظر ایک خبر پر پڑی، جس کی سُرخی نے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

خبر کچھ یوں تھی کہ بھارت کے شہر بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی میں بیویوں کو مختصر کورس کروا کر 'سگھڑ بیوی' کا سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ یعنی آپ کو سُگھڑ بیوی کی تلاش ہے تو بھوپال کا رُخ کریں۔

اوّل تو آج کے دور میں خوب سیرت اور سُگھڑ بیگم کی تلاش بالکل ایسی ہی ہے جیسے کالی مسور میں کنکر تلاش کرنا۔  ہر صنف نازک کو 'فیمینزم' کا بخار چڑھا ہے، چوکوں پر ' میرا جسم میری مرضی' اور ' کھانا خود گرم کرو' جیسے نعرے بھی لگتے دیکھے ہیں۔

اب چونکہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے تو سوال اٹھا کہ 'سُگھڑ' صرف بیویاں کیوں ہوتی ہیں؟ شوہر سُگھڑ کیوں نہیں ہو سکتے، اور اگر ہوسکتے ہیں تو انہیں سگھڑاپے کے معیار پر پورا اترنے کیلئے کن خصوصیات کا حامل ہونا پڑے گا۔

سُگھڑ لفظ بیشتر اوقات بڑی بوڑھیاں استعمال کرتی ہیں، لیکن ہم نے ان سے کبھی یہ نہیں سُنا کہ فلانی کا شوہر بڑا سُگھڑ ہے۔

ہمارے دیسی معاشرے میں لذیذ کھانا پکانے، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو سنبھالنے، شوہر کی کمائی میں سے مختلف طریقے اپنا کر بچت کرنے والی اور  دیگر اہم امورِ خانہ داری  کو احسن طریقے سے انجام دینی والی خواتین کے گلے میں خوب سیرت یا سُگھڑ کا میڈل لٹکایا جاتا ہے۔

لیکن انہی کاموں کی توقع شوہروں سے کی جائے تو کیا ہوگا؟ اوّل تو کچھ حضرات کی مردانگی پر حرف آجائے گا، کچھ راضی بھی ہوں گی تو ان سے یہ امید نہیں کہ وہ یہ سارے کام بنا خود کو یا کسی چیز کو نقصان پہنچائے کامیابی سے سرانجام دے پائیں۔

اگر کوئی بیوی کی محبت کا مارا ایک دن اس کے ساتھ کپڑے دھلوا لے تو بھولے سے بھی اس کا ذکر کا زبان پر نہیں لائے گا۔کیونکہ وہ جانتا ہے اُسے 'زن مرید' ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ایسا نہیں کہ گھریلو مرد دنیا میں ناپید ہیں، کچھ ہیں جو گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔

لیکن ان میں بھی اقسام ہیں۔ پہلے تو وہ جنہیں کام آتا ہے اور وہ 'علی الاعلان'  کرتے بھی ہیں۔ دوسرے وہ جو بیوی کا ہاتھ بٹاتے تو ہیں، لیکن امّاں کی نظروں میں آئے بنا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ساری زندگی گلی کے نکڑ سے پانچ روپے کا ہرا دھنیا لانے سے پہلے بھی پورا گھر ان کا ناگن ڈانس دیکھتا تھا۔ اب اگر اماں 'ازلی کام چور' کو بیگم کی ایک آواز پر جی حضوری کرتے دیکھ لیں تو ان کا کیا انجام ہو۔

تیسرے وہ حضرات ہیں جنہیں نہ تو کوئی کام آتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی کام کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ بس گھر سے دفتر، دفتر سے دوست اور دوستوں سے واپس گھر ان کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ اگر انہیں زبردستی کسی کام کرنے پر مجبور کیا جائے تو یہ آپ کو تھوڑی دیر بعد زخمی ملیں گے یا پھر آپ کیلئے کام کو دُگنا کئے بیٹھے ہوں گے۔

طویل لب کشائی کا لب لباب یہ ہے کہ شوہر اور سُگھڑ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ صنفی تقابل ایک اچھی چیز ہے، لیکن  قدرت نے خواتین اور مردوں کو مخصوص مقاصد کیلئے بنایا ہے۔ ایک  مشہور دیسی کہاوت ہے،

'جس کا کام اُسی کا ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے'

(یہ تحریر پہلی مرتبہ 22 ستمبر 2018 کو لکھی گئی تھی)

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے  ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div