Aaj News

جمعہ, اپريل 19, 2024  
11 Shawwal 1445  

صورتحال بد سے بدتر، مکمل لاک ڈاؤن ناگزیر۔۔۔

بار بار سمجھایا گیا بتایا گیا التجائیں کی گئیں مگر پاکستانی ...
اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2020 02:12pm

بار بار سمجھایا گیا بتایا گیا التجائیں کی گئیں مگر پاکستانی عوام نے ایک نہ سنی۔ دنیا بھر میں جہاں اب کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے تو وہیں دوسری طرف پاکستان میں بروقت اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرنے پر اب اموات کی شکل میں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ملک بھرمیں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، اموات کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں 2 ماہ کا نام نہاد لاک ڈاؤن کرکے عوام کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ خان صاحب بار بار کہتے رہے کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں غریب آدمی متاثر ہوگا مگر ان سب بیانات کے باوجود لاک ڈاؤن کیا گیا، وبا سے نمٹنے کیلئے مختلف ممالک نے ایک جامع حکمت عملی کے تحت اس وبا کا مقابلہ کیا مگر افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں حکومت صرف بیانات کی حد تک ہی حکمت عملی بناسکی۔

عالمی ادارہ برائے صحت نے گزشتہ ہفتہ خدشات سے آگاہ کیا کہ پاکستان لاک ڈاؤن ختم کرنے کہ کسی ایک شرائط پر بھی پورا نہیں اترتا، ڈبلیو ایچ او نے تجویز دی کہ دو ہفتہ سخت لاک ڈاؤن کیا جائے اور 2 ہفتہ نرمی کی جائے اور ٹیسٹنگ کی تعداد کو بھی بڑھایا جائے تاکہ اس وبا کو کنٹرول کیا جاسکے مگر حکومت نے عالمی ادارہ برائے صحت کی تجویز پر کسی صورت کان نہیں دھرے اور ایک بار پھر سمارٹ لاک ڈاؤن کا راگ الاپنا شروع کردیا۔

لاہور سمیت پنجاب کے کچھ حصوں میں ایک بار پھر لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے مگر حکومت کی یہ سمارٹ لاک ڈاؤن والی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے جب ہر گلی اور ہر شہر سے کورونا وائرس کے مریض سامنے آرہے ہوں تو پھر صرف چند ایک گلیوں کو بند کرنے سے کیا ہم اس وبا کو کنٹرول کرسکتے ہیں؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے ہم جب تک سخت لاک ڈاؤن نہیں کرتے اس وقت تک وبا کو کنٹرول کرنا مشکل ہے دنیا کے مختلف ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ پہلے سخت لاک ڈاؤن اور پھر کچھ نرمی کر کے کچھ شعبوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ سخت ایس او پیز بنائی گئیں جس پر عمل کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں نہ ایس او پیز پر عمل ہورہا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کارروائی۔۔۔ حکومت نے ساری ذمہ داری عوام کو سونپ دی ہے۔

یہ وہ قوم ہے جو کورونا کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے تو ایس او پیز پر عمل کیسے کریں گے؟ عالمی ادارہ برائے صحت کے بعد برطانوی ادارے نے بھی خوفناک اعدادوشمار جاری کیے جس کے مطابق اگر سخت لاک ڈاؤن نہ کیا گیا تو 10 اگست تک روزانہ 80 ہزار اموات ہونگی اور اگلے سال جنوری تک 22 لاکھ اموات ہوسکتی ہیں۔ یہ اعدادوشمار انتہائی خطرناک اور خوفناک ہیں، حکومت اور عوام نے سنجیدگی نہ دکھائی تو کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔

درج بالا تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہوسکتی ہے، آج نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div