Aaj News

ہفتہ, اپريل 20, 2024  
11 Shawwal 1445  

اپنے ہاتھوں اپنے کریئر کو خطرے میں ڈالنے والے پاکستانی کرکٹرز

دنیا بھر میں ایسے کرکٹرز بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے پیر پر ...
شائع 02 جولائ 2020 07:04am

دنیا بھر میں ایسے کرکٹرز بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے پیر پر کلہاڑی نہیں بلکہ کلہاڑی پر پیر دے مارا، جس کا اُنہیں نہ صرف نقصان اٹھانا پڑا بلکہ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔

کھلاڑیوں کی بظاہر معمولی سی غلطی بعض اوقات اُن کے کریئر کو لے ڈوبتی ہے۔ ماضی میں کئی ایسے کرکٹرز گزرے ہیں جنہیں اپنی لاعلمی یا لاپرواہی کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے سابق کپتان اور آل راؤنڈر محمد حفیظ اپنی ایک ٹوئٹ کی وجہ سے تنازع کی زد میں آئے تھے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اُنہیں پابندی یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہوئی اور معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔

دنیائے کرکٹ کے ایسے مایہ ناز کھلاڑیوں کی "آف دی فیلڈ" کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ کون کون سے کھلاڑی تھے جنہیں خطرے سے کھیلنے کا شوق مہنگا پڑا تھا۔

٭ جب شاداب خان گوگلی پر آؤٹ ہوتے ہوتے رہ گئے

ویسے تو ان دنوں محمد حفیظ کرکٹ کے حلقوں میں موضوعِ بحث ہیں لیکن کہتے ہیں کہ 'اگلے زمانے میں کوئی شاداب بھی تھا۔'

گزشتہ ہفتے محمد حفیظ کے ساتھی اسپنر شاداب خان کا بھی کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ لیکن انہوں نے بورڈ کے فیصلے کو درست مانا اور لوگوں سے دعاؤں میں یاد رکھنے کی اپیل کی۔

وہ کرتے بھی تو کیا کرتے۔ گزشتہ برس ہونے والے ورلڈ کپ سے قبل بھی ان کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ پاکستان ٹیم کے اعلان کے بعد شاداب خان وائرل انفیکشن کا شکار ہوئے تھے اور بعد میں پتا چلا کہ اُنہیں 'ہیپا ٹائٹس سی' ہے۔

شاداب خان کی جگہ یاسر شاہ کو ٹیم کے ہمراہ انگلینڈ بھیجا گیا۔ اسی اثنا میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیکل بورڈ نے شاداب خان کا کامیاب علاج کیا اور چند میچز کھونے کے بعد انہوں نے صحت یاب ہو کر میگا ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔

شاداب خان کو بیماری کہاں سے لگی تھی؟ اس بارے میں پی سی بی نے تو کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا تھا لیکن ذرائع کے مطابق شاداب خان نے راولپنڈی میں ایک مقامی دندان ساز سے دانتوں کا علاج کرایا تھا جو اُنہیں اس وقت تو سستا پڑا ہو گا، لیکن بعد میں مہنگا پڑ گیا تھا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ شاداب نے کووڈ 19 ٹیسٹ میں بورڈ کے فیصلے کو درست مان کر چپ سادھ لی۔

٭ یاسر شاہ کی معمولی سی غلطی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیگ اسپنر یاسر شاہ بھی ماضی میں کچھ ایسے کارنامے سر انجام دے چکے ہیں جنہیں وہ بھول جانا چاہتے ہوں گے۔

دو ہزار پندرہ کے آخر میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے لیگ اسپنر کو ممنوعہ ادویات کے استعمال کے شبہے میں معطل کر دیا تھا۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ یاسر شاہ نے بلڈ پریشر کی شکایت پر غلطی سے اپنی اہلیہ کی دوا کھا لی تھی جس کی وجہ سے ان کے خون کے نمونے میں 'کلورٹالیڈون' نامی ڈرگ کے آثار نظر آئے تھے۔

اس غلطی کی سزا انہیں کچھ اس طرح ملی کہ انہوں نے تین ماہ کا عرصہ کرکٹ ٹیم سے باہر گزارا اور اب وہ جب دوا کھاتے ہوں گے تو یقیناً بہت دیکھ بھال کر کھاتے ہوں گے۔

٭ محمد آصف کے بٹوے سے کیا نکلا؟

پاکستان کرکٹ ٹیم میں بہت سے کھلاڑی آئے جنہوں نے کریئر کے آغاز میں غلطیاں تو کیں لیکن بعد میں خود کو سدھارنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن ایک ایسا کھلاڑی بھی گزرا ہے جس نے متعدد بار غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بالآخر کرکٹ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔

اس کھلاڑی کا نام محمد آصف تھا جس نے نہ تو 2007 ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل شعیب اختر سے جھگڑے سے کچھ سیکھا اور نہ ہی اداکارہ وینا ملک کے ساتھ اسکینڈل سے۔

یہاں اُن کا ذکر نہ تو کسی اسکینڈل کی وجہ سے ہو رہا ہے، نہ ہی جھگڑے کی وجہ سے بلکہ ان کے بٹوے کی وجہ سے اور جو کچھ اس بٹوے سے نکلا۔

ہوا کچھ یوں کہ 2008 میں انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے کے بعد وطن واپسی پر دبئی ایئر پورٹ پر محمد آصف کی ویسے ہی تلاشی لی گئی جیسے دیگر مسافروں کی لی جاتی ہے۔

اس تلاشی کے دوران اُن کے بٹوے سے چرس برآمد ہوئی اور اُنہیں 19 روز تک دبئی میں پولیس حکام نے تحویل میں رکھا۔

جب اُن سے اس ممنوعہ شے کے بارے میں پوچھ گچھ ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک جڑی بوٹی ہے جسے وہ اپنا بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تقریباً تین ہفتے دبئی میں سرکاری مہمان بننے کے بعد محمد آصف وطن تو واپس آ گئے لیکن دو سال بعد انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث پائے گئے۔ انگلینڈ کی جیل میں پانچ سال گزارنے کے بعد وہ دوبارہ کرکٹ ٹیم میں کبھی نہیں آئے اور نہ ہی آ سکیں گے۔

٭ ذوالقرنین حیدر ٹیم کو چھوڑ کر فرار

ہر کرکٹر کا خواب ہوتا ہے کہ اپنے ملک کی کم از کم انٹرنیشنل کرکٹ میں نمائندگی کرے اور اس کے بعد اپنی جگہ پکی کرنے کی کوشش کرے۔

وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر نے پاکستان کی ٹیسٹ، ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں نمائندگی تو کی، لیکن اس سے پہلے کہ ان کی جگہ پکی ہوتی، وہ ٹیم کو بیچ سیریز میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

آٹھ اکتوبر 2010 کی صبح جب پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں پانچویں ون ڈے میچ کے لیے دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں جمع ہوئیں تو پاکستان ٹیم کا وکٹ کیپر غائب تھا۔

ذوالقرنین حیدر نہ صرف بلا اجازت دبئی سے انگلینڈ چلے گئے تھے بلکہ اپنی منزل پر پہنچ کر انہوں نے پناہ کے لیے درخواست بھی دے دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مینجمنٹ سے اپنا پاسپورٹ فون کی سم خریدنے کی غرض سے واپس لیا تھا اور سم لینے کے بجائے جہاز کا ٹکٹ کٹایا اور رفو چکر ہو گئے۔

ذوالقرنین کے بقول سیریز کے چوتھے میچ میں وننگ شاٹ مارنے کے بعد اُنہیں اور ان کی فیملی کو دھمکیاں ملی تھیں جس کی وجہ سے وہ کرکٹ سے دور ہی نہیں، بہت دور چلے گئے تھے۔

ان کی جگہ عمر اکمل نے وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دیے۔ یہ میچ اور سیریز تو پاکستان ہار گیا لیکن ذوالقرنین حیدر دونوں کو یادگار بنا گئے۔

کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، بلا اجازت ٹیم کو چھوڑ کر چلے جانے اور ملک کا نام بدنام کرنے پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے ذوالقرنین حیدر پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

٭ سینئرز بھی کبھی جونیئر تھے

انیس سو اٹھانوے میں پاکستان ٹیم کا دورۂ جنوبی افریقہ جہاں شعیب اختر کی تباہ کن بالنگ کی وجہ سے سب کو یاد ہے۔ وہیں محمد اکرم اور ثقلین مشتاق کے ساتھ ہونے والے واقعے نے بھی اسے یادگار بنانے میں کم کردار ادا نہیں کیا تھا۔

یہ کہانی کسی انگلش فلم سے کم نہیں۔ محمد اکرم اور ثقلین مشتاق کے بقول وہ جوہانسبرگ کی سڑکوں پر چہل قدمی کر رہے تھے کہ ایک بلیو گاڑی میں تین سیاہ فام لوگ آئے اور ان دونوں پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں محمد اکرم کے ہاتھ اور پاؤں زخمی ہوئے اور ثقلین مشتاق کی گردن میں چوٹ آئی۔

کھلاڑیوں کی جان تو بچ گئی لیکن انہیں اپنے والٹ اور پیسوں سے محروم ہونا پڑا، اوپر سے جو شرمندگی میزبان بورڈ کو اٹھانا پڑی، وہ الگ۔

ٹیم کے کپتان راشد لطیف اور فاسٹ بالر وقار یونس کی انجری کی وجہ سے پاکستان ٹیم پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی، اس واقعے کے بعد مہمان ٹیم کا فائنل الیون مکمل کرنا ہی مشکل ہو گیا تھا۔

گیارہ کھلاڑیوں میں شامل شعیب اختر بھی مسلسل انجری کا شکا ر تھے۔ ایسے میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقی بورڈ سے میچ آگے بڑھانے کی درخواست کی لیکن میچ صرف ایک دن کی تاخیر سے شروع ہوا۔

لیکن کہانی کا ایک اور رخ جو بعد میں سامنے آیا، وہ بھی غور طلب ہے۔ انگلش اخباروں کے مطابق دونوں کھلاڑی جوہانسبرگ کی سڑکوں کی سیر کے بجائے نائٹ کلب میں مست تھے جب وہاں کے باؤنسر نے انہیں ہنگامہ آرائی کرنے کی وجہ سے باہر پھینکا۔

ٹیم مینجمنٹ نے اس الزام کی سختی سے تردید کی لیکن انگلش میڈیا نے اس خبر کو خوب اچھالا۔

بات جو بھی ہو، پہلا ٹیسٹ جیسے تیسے ڈرا ہوا، دوسرا میچ تو پاکستان نے جیتا، محمد اکرم تو زیادہ عرصہ کرکٹ نہ کھیل سکے لیکن شعیب اختر اور ثقلین مشتاق نے جو کمالات دکھائے، وہ آج بھی سب کو یاد ہیں۔

٭ عمر اکمل کی عظیم قربانی، سرفراز احمد کی انٹری

اس عظیم ایثار اور قربانی کی مثال پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جب ایک بھائی نے دوسرے بھائی کی خاطر ٹیم میں اپنی جگہ قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ بات ہے سن 2010 کے آسٹریلوی دورے کی جب کامران اکمل کو مسلسل خراب کارکردگی پر ٹیم سے ڈراپ کیا گیا اور سرفراز احمد کو پاکستان سے بھیجا گیا تاکہ وہ ہوبارٹ ٹیسٹ میں وکٹ کے پیچھے کیچ پکڑ کر ٹیم کا حوصلہ بڑھائیں۔

کہانی میں ٹوئسٹ اس وقت آیا جب کامران اکمل کے چھوٹے بھائی عمر اکمل نے پیٹ میں درد کا بہانہ کر کے مینجمنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ "بھائی نہیں، تو میں بھی نہیں"۔

غیر ملکی اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق عمر اکمل کی اس حرکت کے پیچھے کھلاڑیوں کا ایک گروہ شامل تھا جس نے کامران اکمل کو کبھی ڈراپ نہیں ہونے دیا۔

لیکن عمر اکمل شاید یہ بھول گئے تھے کہ یہ ان کے گلی محلے کی ٹیم نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ ٹیم ہے۔ اُن کے بڑے بھائی کو ناقص ترین کارکردگی کے بعد ڈراپ کیا گیا۔

ٹیم کے فاسٹ بالر محمد عامر، عمر گل، محمد آصف اور لیگ اسپنر دانش کنیریا شاید دل ہی دل میں چاہ رہے تھے کہ ان کی بالنگ کے وقت وکٹ کے پیچھے کیپر کی جگہ کیچ گرانے کی مشین نہ ہو۔

ہوبارٹ ٹیسٹ میں سرفراز احمد نے ڈیبیو کیا اور چار کیچز پکڑ کر ایک اچھا تاثر چھوڑا۔ مزید پانچ سال کے انتظار کے بعد وہ ٹیم کا مستقل رکن بنے اور بعد میں کئی کامیابیوں سے پاکستان کو ہم کنار کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہوبارٹ ٹیسٹ سے سرفراز کا عروج اور اکمل برادران کا زوال شروع ہوا۔

٭ شاہد آفریدی کی چٹکی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی کھیل کا حصہ ہوں یا نہ ہوں۔ ہمیشہ ہی خبروں میں رہتے ہیں۔

چھ ستمبر 2018 کو اسلام آباد میں ہونے والی تقریب میں وہ ہاکی لیجنڈز حسن سردار اور شہبار احمد سینئر کے ساتھ بیٹھے تھے۔ تقریب اسٹیج پر جاری تھی کہ اچانک لوگوں کی اسکرین پر شاہد آفریدی نسوار کھاتے نظر آئے۔

انہوں نے نہ یہ دیکھا کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں یا کس کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ بس اُنہیں طلب ہوئی جسے انہوں نے پورا کیا۔

جب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ہنگامہ برپا ہوا تو سابق کپتان نے اپنی صفائی میں کہا کہ انہوں نے نسوار نہیں سونف کھائی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سوال پوچھنے والے ایک صحافی کو انہوں نے سونف سونگھا بھی دی۔

اس بات کا فیصلہ تو نہیں ہو سکا کہ سابق کپتان کے منہ میں جو چیز گئی وہ سونف تھی یا نسوار لیکن اگلی بار کسی محفل میں اگر اُنہیں بھوک یا پیاس لگے گی تو اس سے پہلے شاہد آفریدی یقیناً ارد گرد ضرور نظر ڈالیں گے کہ کہیں کوئی کیمرا ان کی طرف تو نہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div