Aaj News

جمعہ, اپريل 19, 2024  
10 Shawwal 1445  

سفر و سیاحت کے حوالے سے دلچسپ حقائق

کیا آپ جانتے ہیں کہ دیوار چین کی تعمیر میں لیس دار چاول کا...
شائع 16 ستمبر 2020 10:12am

کیا آپ جانتے ہیں کہ دیوار چین کی تعمیر میں لیس دار چاول کا استعمال ہوا اور آئیفل ٹاور موسم کے ساتھ اپنا سائز تبدیل کرتا ہے؟ بھلے آپ اس وقت سفر کا ارادہ نہ بھی رکھتے ہوں مگر ان دلچسپ حقائق سے ضرور لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

جرمن شہر آخن کے نام کا آغاز ڈبل اے سے کیوں؟

ایسے بہت سے جرمن شہر جو گرم پانیوں کے چشموں کے قریب واقع ہیں ان کے نام کا آغاز ’باڈ‘ کے لفظ سے ہوتا ہے جس کا مطلب ہے ’باتھ‘ یا ’اسپا‘۔ جرمنی کے ایک بڑے شہر آخن میں کئی ایک گرم چشمے موجود ہیں مگر اس شہر نے باڈ کے لفظ کو اپنا حصہ بنانے کی بجائے ڈبل اے سے نام شروع کیا ہے جس کی وجہ سے یہ جرمن شہروں کی فہرست میں سب سے اوپر آتا ہے۔ یہاں تک کہ رومن بھی گرم قدرتی چشموں لطف اندوز ہونے اس شہر آیا کرتے تھے۔

کس شہر کا نام طویل ترین ہے؟

یورپ میں کسی شہر کا سب سے بڑا نام "Llanfairpwllgwyngyllgogerychwyrndrobwllllantysiliogogogoch" ہے جو ویلش زبان میں ہے۔ ویلش نہ بولنے والے اس ادا نہیں کر سکتے۔ اس نام کا مطلب ہے ’’سرخ غار پر تھیسیلی کے چرچ اور سوِفٹ ایڈی کے قریب سفید اخروٹ کے خالی چھلکے میں سینٹ میری چرچ‘‘

خوراک کا تعمیر میں استعمال

لیس دار چاولوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ جیسے معدے میں جا کر چپک جاتے ہیں اور پیٹ بھر جانے کا احساس ہوتا ہے تو اسی طرح یہ دیواروں کو بھی طاقت دے سکتے ہیں۔ ڈیڑھ ہزار برس قبل ماہرین تعمیرات نے لیس دار چاولوں کے سوپ کو لیموں کے ساتھ ملا کر ایسا گارا تیار کیا جو مزارات، مذہبی مقامات اور دیواروں وغیرہ کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ دیوار چین کی مضبوطی کی شاید ایک وجہ بھی ایسا ہی گارا ہے۔

موسم کے حساب سے سائز میں رد وبدل

پیرس کے گرم موسم گرما میں آئیفل ٹاور کا اسٹیل سے بنا ڈھانچہ گرم ہو کر پھیل جاتا ہے۔ سردیوں کے مقابلے میں اس کی اونچائی گرمیوں کے موسم میں چھ انچ بڑھ جاتی۔ یہ کام صرف پیرس کے اسی لینڈ مارک کے ساتھ ہی نہیں ہوتا۔ اسٹیل سے بنے تمام ڈھانچے یا عمارات درجہ حرارت میں تبدیلی کے ساتھ پھیلتے یا سکڑتے ہیں۔

ایک طرف مسلسل جھکاؤ

پیسا کا جھکا ہوا ٹاور سیاحوں کے لیے ایک پسندیدہ مقام ہے۔ مگر شاید زیادہ دیر تک ایسا نہ رہے کیونکہ یہ جس نسبتاﹰ نرم ریتلی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے، اس میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ سال 2300 تک گِر جائے گا۔

لاطینی زبان اتنی اہم کیوں

جرمنی کے اسکولوں میں اب بھی لاطینی زبان پڑھائی جاتی ہے۔ یہ زبان ویٹیکن سٹی کی سرکاری زبان ہے۔ یہاں تک کہ اے ٹی ایم مشینوں پر بھی یہی زبان ہے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ زبان آپ کو کہیں نہیں ملے گا۔ آخر رومن سلطنت کے خاتمے کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ روم کے مرکز میں موجود ویٹیکن دنیا کی سب سے چھوٹی ریاست ہے۔

پلوں کا شہر

جرمن شہر ہیمبرگ میں وینس اور ایمسٹرڈم میں موجود پلوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ پُل موجود ہیں۔ ان کی تعداد 2500 کے قریب بنتی ہے۔ یہ پل نہروں اور دریائے آلسٹر کے علاوہ رکاوٹوں کے اوپر بھی بنے ہوئے ہیں۔ اگر آپ ہیمبرگ میں گھوم پھر رہے ہیں تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ ان پلوں سے بچ سکیں۔

صرف مسکراتے ہوئے سر ہلانے پر اکتفا نا کریں

اگر آپ البانیا، بلغاریہ، یونان یا بھارت کا سفر کر رہے ہیں تو پھر اشاروں کے حوالے سے خیال رکھیے۔ ان ممالک میں سر کو دائیں بائیں ہلانے کا مطلب ہاں اور اوپر نیچے ہلانے کا مطلب نہیں ہے۔ لہٰذا غلط فہمی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ جو آپ چاہ رہے ہیں وہ منہ سے ادا کریں۔ مگر اس بارے میں بھی مثال کے طور پر یونان میں احتیاط کیجیے، کیونکہ وہاں ’نے‘ کا مطلب اصل میں ہاں ہے۔

جہاں "ٹائم ٹریول" ممکن ہے

کم از کم کہنے کی حد تک تو۔ جنوبی بحرالکاہل کے فجی جزائر میں تاویونی جزیرہ بھی شامل ہیں۔ طول بلد 180 درجے کی لائن اسی جزیرے میں سے گزرتی ہے جسے ’ڈیٹ لائن‘ کہا جاتا ہے۔ جو لوگ اس لائن پر موجود ہوں ان کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا وجود وقت سے ماورا ہے۔ اور اس سے دائیں اور بائیں جانب حرکت کر کے آپ اصل میں آج اور کل میں جا سکتے ہیں۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div