Aaj News

جمعرات, مارچ 28, 2024  
17 Ramadan 1445  

سعودی عرب کے صحرا میں انسانی قدموں کے سوا لاکھ سال پرانے نشانات

سائنسی تحقیقی جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی تحقیق میں...
اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2020 12:38am
سائنس

سائنسی تحقیقی جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آج سے تقریباً سوا لاکھ سال قبل زمین، خاص طور پر موجودہ سعوی عرب کے علاقے میں انسان کے ساتھ سفر کرنےوالے اونٹ، بھینسیں اور ایسے ہاتھی آج کل کے کسی بھی دوسرے جانور کے مقابلے میں کہیں بڑے ہوتے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ تب انسان بڑے بڑے ممالیہ جانوروں کا شکار بھی کرتا تھا لیکن تب وہ کسی بھی جگہ پر زیادہ دیر تک قیام نہیں کرتا تھا اس کے کسی طویل سفر کے دوران کسی بھی جگہ پڑاؤ کے لیے اہم عوامل میں سے نمایاں ترین کسی جگہ پر پانی کی موجودگی ہوتی تھی۔

نشانات انسانی قدموں کے بھی اور جانوروں کے بھی

اس سائنسی تحقیق کے شریک مصنف رچرڈ کلارک ولسن نے بتایاکہ صحرائے نفود سے صرف انسانی قدموں کے ہی نہیں بلکہ جانوروں کے پیروں کے نشانات بھی ملے ہیں اور ان کے آئندہ مطالعے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مزید مدد ملے گی کہ موجودہ نسل انسانی کے اجداد لاکھوں سال پہلے جب افریقا سے نکل کر دنیا کے دیگر حصوں تک پھیلے تھے، تو اپنے اس سفر کے لئے انہوں نے کون کون سے راستے اختیار کیے۔ آج کے جزیرہ نما عرب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے وسیع اور بنجر صحراؤں سے بھرا پڑا ہے، جو زمانہ قدیم میں انسانی آبادی اور اس کی طرف سے شکار کیے جانے والے جانوروں کےلئے انتہائی ناموافق تھے۔

اس بارے میں رچرڈ کلارک ولسن کہتے ہیں ماضی میں کچھ ادوار ایسے بھی تھے کہ جزیرہ نما عرب کے اندرونی حصے میں بہت سے صحرا وسیع سرسبز علاقوں سے بھرے ہوئے خطے تھے اور وہاں مستقل طور پر تازہ پانی کی کئی جھیلیں اور دریا بھی تھے۔

الآثار جھیل کی باقیات

اس رپورٹ کے بنیادی مصنف میتھیو اسٹورٹ ہیں جن کا تعلق جرمنی کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے کیمیائی ماحولیات سے ہے۔

انہوں نے اس بارے میں کہاہے کہ انسانی قدموں کے یہ انتہائی قدیم نشانات انہوں نے 2017ء میں اپنی پی ایچ ڈی کے لئے تحقیق کے عمل میں فیلڈ ورک کے دوران دریافت کیے تھے۔

میتھیواسٹورٹ کےبقول سعودی عرب کے صحرائے نفود میں اس نشانات کی دریافت اس وجہ سےممکن ہوئی کہ عربی زبان میں 'الآثار' کہلانے والی ماضی کی ایک قدیم اورخشک ہو چکی جھیل کی جگہ پر ارضیاتی تبدیلیوں اور قدرتی طریقے سے ریت اور مٹی ہٹ جانے کے بعد یہ نشانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔

سیکڑوں نشانات میں سے کئی انسانوں کے

انسانی قدموں کے ان انتہائی قدیم نشانات کی عمر کے تعین کےلئے ماہرین نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جو optical stimulated luminescence کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر قدموں، پیروں اور کھروں کے ان نشانات کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان میں سے کم از کم سات نشانات تو یقینی طور پر انسانی قدموں کے نشان ہیں۔

ان میں سے بھی چار نشانات ایسے ہیں، جن کا سائز، سمت اور ایک دوسرے سے فاصلہ دیکھا جائے، تو یہ تصدیق ہو جاتی ہے کہ وہ دو یا تین ایسے انسانوں کے قدموں کے نشانات ہیں، جو آج سے ایک لاکھ بیس ہزار سال قبل وہاں مل کر اور اپنے جانوروں کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔

DW

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div