کیا ہے؟ Déjà vu انسانی دماغ کی پراسرار حالت

شائع 02 جنوری 2018 10:29am

Untitled-1

آپ کو کبھی نہ کبھی ایسا ضرور محسوس ہوا ہوگا کہ جو کام آپ کر رہے ہیں اسے پہلے بھی کر چکے ہیں۔یا آپ کو کسی نئی جگہ پر جا کر ایسا لگا ہوگا کہ آپ یہاں پہلے بھی آچکے ہیں۔ایک اندازے کےمطابق 90 فیصد لوگ اس چیز کا شکار ہوتے ہیں۔اس کا نام  déjà vuہے اور یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے،جس کا مطلب ہے ' پہلے سے دیکھا ہوا'۔

اکثر جو لوگ déjà vu کا شکار ہوتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دنیا میں وہ اکیلے ایسے ہیں جو یہ سب محسوس کر رہے ہیں۔ اس پر بہت سارے نظریات موجود ہیں۔آج ہم آپ کو déjà vu کے بارے میں  5 نظریات بتائیں گے۔

٭ پہلا نظریہ ہندو مذہب کی طرف اشارہ کرتا ہے ،اس نظریے کے مطابق ایسا ہمیں اس لئے محسوس ہوتا ہے ،کیونکہ وہ کام ہم اپنے پہلے جنم میں کر چکے ہوتے ہیں یا وہ جگہ ہم  پہلے جنم میں دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ہندو مذہب اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایک انسان کے 7  جنم ہوتے ہیں۔

٭اس کے متعلق دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب ہم سو رہے ہوتے ہیں تو ہماری روح ہمارے جسم سے باہر نکل کر کچھ کام کرتی ہے،اور وہ کا م ہمارے  نیم سوئے ہوئےدماغ میں محفوظ ہوجاتا ہے۔پھر جب ہم حقیقت میں وہ کام کرنے لگتے ہیں تو  ہمیں لگتا ہے کہ یہ کام ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔

٭اس پر  تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے،اس کے اندر کوئی نہ کوئی بات گردش کرتی رہتی ہے،اور ہم خیالوں میں بہت ساری تصویروں کو بناتے ہیں۔ان میں سے کچھ تصویریں حقیقت سے  مشابہہ ہوتی ہیں،اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ  ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

٭ چوتھا نظریہ یہ ہے کہ جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہم اپنے ماں باپ پر جاتے ہیں،ہماری کچھ عادتیں ،جسم کے کچھ حصے،ہمارا چہرا کسی نہ کسی حد تک ماں باپ پر جاتا ہے۔اسی دوران ہمارے اندر اپنے ماں باپ کی کچھ یادیں بھی آجاتی ہیں،تو جب ہمارے ساتھ حقیقت میں کچھ ایسا ہوتا ہےجو ہمارے ماں باپ کے ساتھ ہوچکا تھا تو ہمیں وہ اس طرح لگتا ہے کہ یہ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔

٭déjà vu  کا پانچواں بڑا نظریہ یہ ہے کہ انسان کے دماغ کے اندر ایک  شریان ہوتی ہے جس کے دبنے سے ہمارے دماغ کو ایسا لگتا ہےکہ یہ کام پہلے بھی کر چکے ہیں ،اس جگہ پر ہم پہلے بھی آچکے ہیں۔جب بھی ہمارے دماغ کی وہ شریان دب جاتی ہے یا کھنچ جاتی ہے،تو ہمیں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔