Aaj Logo

شائع 30 نومبر 2020 10:01am

سکھ مرد "سنگھ" اور سکھ خواتین "کور" کیوں ہوتی ہیں؟

سلسلہ ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان سے گزرنے والا دریائے سندھ تبت میں جس مقام سے پھوٹتا ہے وہاں اس دریا کو "سِنگی کھمبن" کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے "شیردریا"۔

جب یہ دریا شمال سے نیچے کی طرف خیبرپختونخواہ میں آتا ہے تو وہاں اسے "اباسین" کہا جاتا ہے جس کے معنی "دریاؤں کا باپ" ہیں۔

چوں کہ اس خطے میں یہ سب سے بڑا دریا ہے اس لیے یہ نام اس پر پھبتا بھی ہے۔ خود آریاؤں کا سامنا جب اس دریا سے ہوا تو انہوں نے اس "سندھو" پکارا جس کا مطلب ہی "عظیم دریا" ہے۔

اب واپس دریا کے پہلے نام "سِنگی" پر آئیں، جس کی دوسری صورت "سنگھ" ہے اور معنی "شیر" ہیں۔ مشرق بعید کا مشہور ملک اسی "سنگھ" سے منسوب ہونے کی وجہ سے "سنگاپور" یعنی "شیر کا شہر" کہلاتا ہے۔

"سنگھ" سکھ مت کے ہر مرد پیروکار کے نام کا لازمی جُز ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سکھوں کے چھٹے پیشوا "گرو ہرگوبند" نے اپنے ماننے والے مردوں کو "سنگھ" یعنی "شیر" اور خواتین کو "کور" کا خطاب دیا تھا۔ "کور" عربی لفظ "حُور" کی تبدیل شدہ صورت ہے، تاہم "کور" کے معنی میں "شہزادی" بھی شامل ہے۔

اب شیر کی رعایت سے "شمشیر" پرغور کریں، یہ دو لفظوں کا مرکب ہے۔ پہلا لفظ "شم" ہے جو قدیم فارسی میں "ناخن" کو کہتے ہیں دوسرا لفظ "شیر" ہے، یوں "شمشیر" کے لفظی معنی ہوئے "شیر کا ناخن"، جب کہ اصطلاح میں "خمیدہ تلوار" کو "شمشیر" کہتے ہیں جو تیزی میں شیر کے ناخن کا کام دیتی ہے۔

اب "ناخن" کے حوالے سے آخری بات اور وہ کہ "ناخن" کی اصل "ناخون" ہے یوں اس کے معنی ہوئے "بنا خون والا"۔ ناخن بڑھتے ہیں آپ کاٹتے ہیں اورخون نہیں نکلتا ۔ اب "ناخن" کی رعایت سے "پیر شیر محمد عاجز" کا شعر ملا حظہ کریں:

ناخن کا رنگ سینہ خراشی سے یہ ہوا سرخی شفق سے آتی ہے جیسے ہلال پر

Read Comments