Aaj News

ہفتہ, مئ 04, 2024  
25 Shawwal 1445  

کراچی پولیس کا نشانہ کہیں اور بندوق کہیں اورہوتی ہے،سپریم کورٹ

شائع 17 اکتوبر 2019 12:21pm
فائل فوٹو

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں امل قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی پولیس کی فائرنگ سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے، کراچی میں ٹریفک سگنل پر رکے لوگ لوٹ لیے جاتے ہیں، پولیس کی ناک کے نیچے منشیات کا دھندا ہوتا ہے۔ کالا پُل پر ابھی بھی نشئی سوئے پڑے ہوں گے، کراچی پولیس کا نشانہ کہیں اور بندوق کہیں اورہوتی ہے۔

جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2رکنی بینچ نے کراچی میں امل عمر از خود نوٹس پرسماعت کی۔عدالت نے سندھ حکومت اور کراچی پولیس پر برہمی کا اظہارکیا ۔

جسٹس گلزار احمد نے کراچی کے اسپتالوں میں کیے جانے والے اقدامات سے متعلق پوچھتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایمرجنسی میں لواحقین کو دوائی لینے بھجوا دیا جاتا ہے جہاں لائن میں لگے لواحقین کے مریض اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ ادویات فراہم کرنا اسپتالوں کا کام ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے پولیس اہلکاروں کی تربیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ پولیس کانسٹیبل کو بڑی بڑی بندوقیں دے رکھی ہیں جوان کوچلانا بھی نہیں آتیں ،ہتھیار دینے کی بجائے ماضی کی طرح ڈنڈے دینے چاہئیں، اسلحہ پولیس اہلکاروں کے پاس نہیں صرف افسران کے پاس ہونا چاہیئے۔

جسٹس گلزار احمد نے مزیدریمارکس دیئے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2013 میں بنا 4سال ایکٹ الماری میں پڑا رہا۔ اس کا ذمہ دور کون ہے؟ کیوں نہ غفلت برتنے پر ہیلتھ کیئر کمیشن کیخلاف مقدمہ درج کرائیں۔

ایڈیشنل آئی جی سندھ نے بتایاکہ پولیس کانسٹیبلز سے ہتھیار واپس لے لئے ہیں۔

عدالت نے سندھ ہیلتھ کیئرکمیشن کو نیشنل میڈیکل سینٹر کے خلاف انکوائری کا حکم دیتے ہوئے انکوائری مکمل کرکے ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالت  نے امدادی رقم نہ دینے پر بھی سندھ حکومت سے جواب طلب  کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div