Aaj News

ہفتہ, مئ 18, 2024  
09 Dhul-Qadah 1445  

اسمبلی تحلیل ہونے میں 3 دن تاخیر ہوسکتی ہے، فواد چوہدری

ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں، 72 گھنٹے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی، پی ٹی آئی رہنما
شائع 20 دسمبر 2022 12:30am
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری۔ فوٹو — فائل
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری۔ فوٹو — فائل

سابق وفاقی وزیر اور رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اسمبلی توڑنے میں تین دن کی تاخیر ہو سکتی ہے۔

آج نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ ن لیگ الیکشن سے بھاگ رہی ہے، عدم اعتماد کی وجہ سے اسمبلی تحلیل کرنے میں تین دن تاخیر ہو سکتی ہے، البتہ ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں، 72 گھنٹے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ڈکٹیٹر شپ کے سہارے حکومت میں ہے، انہیں عوام کی کوئی حمایت حاصل نہیں جب کہ فیصلہ عوام کی عدالت میں ہی ہوگا۔

ایک ٹویٹ میں فواد چوہدری نے لکھا کہ عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا مقصد الیکشن سے فرار ہے، کل تک رانا ثناء اللہ اور احسن اقبال کہتے تھے اسمبلی تحلیل کرو ہم الیکشن میں جائیں گے اور آج یہ جوتے چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد نا کام ہوگی اور پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کریں گے، عوام کا فیصلہ ہی حتمی ہے۔

گورنر پنجاب کی پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت

وزیراعلیٰ کو بدھ کے روز شام 4 بجے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے، عطا تارڑ
اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2022 12:10am
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو بدھ کے روز شام 4 بجے اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کردی۔

حکم نامے میں گورنر پنجاب نے کہا کہ پرویز الہیٰ اپنی پارٹی، ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، حکومتی اتحادی جماعتوں میں سنجیدہ اختلافات ہیں۔

بلیغ الرحمان نے کہا کہ وزیر اعلی نے خیال احمد کو کابینہ میں شامل کیا، عمران خان نےکابینہ میں توسیع سے لا علمی کا اظہار کیا جس سے دونوں جماعتوں میں اختلافات صاف ظاہر ہیں جب کہ کابینہ رکن حسنین بہادر دریشک اختلافات پر مستعفی ہوئے۔

گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز الٰہی نے ایک انٹرویو میں کہا مارچ تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے، لہٰذا وہ 21 دسمبر شام 4 بجے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ گورنر نے وزیرا علی کو بدھ کی شام 4 بجے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ تحریک جمع ہونے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوسکتیں اور تمام ارکان اسمبلی بھی چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں، کسی کو حق نہیں اپنی خوشنودی کے لئے اسمبلیاں گرائے۔

اس موقع پر رہنما پیپلز پارٹی حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تعداد پوری ہے یا نہیں اس کا کل پتا چل جائے گا، البتہ فیصلہ وہی ہوگا جو اتحادی چاہیں گے۔

حسن مرتضیٰ نے کہا کہ تحریک پر ووٹ ان کو پورےکرنے ہیں، ہمیں نہیں، جب کہ وزیر اعلیٰ کون ہوگا یہ فیصلہ بھی متفقہ طور پر اتحادی کریں گے۔

واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے وزیر اعلیٰ پنجاب، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکٹریٹ میں جمع کرادی ہے۔

پی ڈی ایم نے وزیراعلیٰ پنجاب، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیخلاف عدم اعتماد جمع کرا دی

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکان اب سے کچھ دیر بعد پنجاب اسمبلی پہنچیں گے، ذرائع
اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2022 10:35pm
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالہیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکٹریٹ میں جمع کرادی۔

ذرائع کے مطابق ن لیگ اور پیپلز پارٹی ارکان پنجاب اسمبلی پہنچے، وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد حسن مرتضیٰ اور خلیل طاہر سندھو نے اسمبلی سیکٹریٹ میں جمع کروائی۔

ذرائع نے بتایا کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف بھی عدم اعتماد جمع کرائی گئی جب کہ پی ڈی ایم پرویز الٰہی کے خلاف اعتماد کے ووٹ کا بھی آپشن استعمال کرے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کھلا ہوا تو آج ہی تحریک جمع کرادی جائے گی، سیکرٹریٹ بند ہونے پر عدم اعتماد کی تحریک صبح جمع کرائی جائے گی۔

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لئے حکمت عملی مکمل کرتے ہوئے اعتماد کے ووٹ کے ساتھ ساتھ ق لیگ اور پی ٹی آئی کے اراکین سے رابطوں کے لئے چوہدری شجاعت اور آصف علی زرداری کو ٹاسک دینے کا فیصلہ کیا۔

آصف زرداری کی جانب سے بھی پی ٹی آئی کے ناراض اراکین سے رابطوں کا عندیہ دیتے ہوئے اتحادیوں کے ساتھ آئندہ 48 گھنٹوں میں ملاقاتیں کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے رواں ہفتے 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کررکھا ہے۔

’عمران خان کی سیاست مونس الہیٰ کی مٹھی میں‘

'180 اراکین اسمبلی ان کے ہیں۔۔۔'
شائع 19 دسمبر 2022 09:18pm
Kiya Imran Khan ki siyasat ab Pervaiz Elahi kay hathon main hai?| Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ اچھا وقت گزرا، مشکور ہوں کہ انہوں نے سندھ سے مجھے سینیٹر بنایا۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ اپنے سیاسی مستقبل پر بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ووٹرز کی نظر سے دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں تمام جماعتیں دائیں بازو کی جماعتیں ہیں، اس ملک میں لبرل اور بائیں بازو کی جماعت کی بہت گنجائش ہے اور یہ گنجائش پاکستان پیپلز پارٹی میں ہے۔

آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہوں

انہوں نے پیپلز پارٹی سے نکالے جانے کی وجہ بیان کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ”چھوڑیں آگے بڑھیں۔“

سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ کسی پارٹی میں جانے کی خواہش نہیں، اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہوں، کوشش ہے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑوں۔

انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا کہ ”موجودہ دور کی سیاست میں کوئی چاشنی نہیں رہی، ایک ہی زلف کے سب اسیر ہیں، وہیں پر سب آشیرباد لینے جاتے ہیں۔“

ہماری حکومت ہے تو ہم کیوں صفائیاں دے رہے ہیں

ایک سوال کے جواب میں مصطفیٰ نواز نے اپنا سوال اٹھایا کہ عمران خان کی سیاست کو دیکھیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں سازش کے زریعے ہٹایا گیا یا جو بھی ان کا بیانیہ ہے، تو اگر یہ نکال دیں تو ان کے پاس معیشت اور ملک کو ٹھیک کرنے کا کیا پروگرام ہے؟

انہوں نے انسانی اور اظہارِ رائے کے حقوق پر بات کرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں جو صحافی کمیونٹی کے ساتھ کیا گیا، ”آپ کو نشانہ بنایا گیا، آپ کو ٹرول کیا گیا، بہت کچھ کہا گیا، آپ کی ہمت ہے کہ آپ پھر بھی موجود رہیں، مقابلہ کرتی رہیں، ابصار عالم کے ساتھ کیا ہوا، مطیع اللہ جان کے ساتھ کیا ہوا، اسد طور کے ساتھ کیا ہوا؟“

ان کا کہنا تھا کہ ”ہم نے اس چیز کو دیکھ کر عمران خان کی حکومت پر تنقید کی، تو آج جب ہماری حکومت ہے تو ہم کیوں صفائیاں دے رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات روٹین ہیں سیاست میں ہوتا ہے۔“

ملک کے موجودہ حالات اور سیاسی طرزِ عمل میں تبدیلی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان کی بہن کو غدار کہا گیا، سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، اس کے بعد یہ سب کچھ ختم ہوجانا چاہئیے تھا لیکن 75 سال میں کچھ نہیں ہوا۔

ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے پر اعتراض اٹھانے پر ان کا کہنا تھا کہ صورتِ حال بہت پیچیدہ بن گئی ہے، سوات کے اندر مظاہرے ہو رہے ہیں کہ یہ لوگ ہمیں اپنے بیچ قابلِ قبول نہیں ہیں۔

مصطفیٰ نواز نے کہا کہ ”قومی سلامتی کی جن میٹنگز میں میں شریک رہا، ان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم نے ان کے ساتھ یہ چیزیں طے کرلی ہیں اور ان کی ری سیٹلمنٹ بھی کر رہے ہیں، لیکن لوگوں نے ری ایکشن دیا۔“

75 سال میں کچھ نہیں بدلا اب کیا بدلے گا

انہوں نے کہا کہ ”ہماری خارجہ پالیسی کی سمت کیا ہے، طالبان نے حکومت اور امریکہ کو بے دخل کیا تو کہا گیا راء اور بھارت نواز حکومت کا خاتمہ ہوا، لیکن اب یہی لوگ دہشتگردی میں ملوث افراد کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔“

اپنی برطرفی پر مصطفیٰ نواز نے شکوہ کیا کہ یہاں پر جب آپ کسی چیز کو ٹھیک کرنے کی نیت سے گفتگو بھی کریں گے تو آپ کو پسند نہیں کیا جائے گا۔

فوج کے غیر سیاسی ہونے کی بات پر انہوں نے کہا کہ سب اداروں کو آئینی کردارتک ہی محدود کرنے کی ضرورت ہے، ففتھ جنریشن وار کے نام پر صحافیوں کو غدار بنا دیا گیا تھا۔

14 پارٹیاں پاؤں پکڑ رہی ہیں ہمیں یہی وزیراعلیٰ منظور ہے

پروگرام کے دوسرے حصے میں شرکت کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے ”ابھی تک“ٗ کے رکن اسمبلی صداقت علی عباسی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے مخالفین کو توقع نہیں تھی کہ وہ حکومتیں ختم کردیں گے، 14 پارٹیاں پاؤں پکڑ رہی ہیں کہ ہمیں یہی وزیراعلیٰ منظور ہے آپ اسمبلیاں نہ توڑیں، چوہدری پرویز الہیٰ ہمارا پارٹنر ہے، ہم اور پرویز الہیٰ اسمبلی توڑنے پر متفق ہیں۔

عمران کی سیاست مونس الہٰی کی مٹھی میں

صداقت عباسی کی بات پر ردعمل دیتے ہوئے جمیعت علماء اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا کہ آئین اور اسمبلی توڑنا ڈکٹیٹر شپ کی علامت ہے، اور عمران خان نے جمہوری شخص ہوتے ہوئے دونوں کام کئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پنجاب کی حکومت سپریم کورٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر بنائی ہے، آج عمران خان کی کوئی سیاست نہیں ہے، عمران خان کی سیاست مونس الہٰی کی مٹھی میں ہے، 180 اراکین اسمبلی ان کے ہیں۔

انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت اتنی بے حس ہے کہ سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ پر مسلح جنگجوؤں کا حملہ ہوا لیکن ان کو اس کی کوئی فکر نہیں۔