Aaj News

ہفتہ, مئ 18, 2024  
09 Dhul-Qadah 1445  

14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں مگر فیصلہ تاریخ بن چکا، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نظرثانی ایکٹ اور پنجاب الیکشن کیس کی سماعت ایک ساتھ ہوئی۔
اپ ڈیٹ 07 جون 2023 12:49pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ اور پنجاب الیکشن کے معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہے گا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں۔

منگل کو سپریم کورٹ میں ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی، دیگر 2 ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ درخواستیں آئی ہیں، ریویو ایکٹ کا معاملہ کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے، اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، ریویو ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بینچ سنے گا، علی ظفر صاحب آپ بھی ریویو ایکٹ پراپنا نقطہ نظر بتادیں۔

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی یہی معاملہ اٹھایا گیا تھا، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دے رکھا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حکم امتناع ریویو ایکٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے، سپریم کورٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کو سن سکتی ہے، سپریم کورٹ ریویوایکٹ حکم امتناع کی وجہ سے اس عدالت پر ابھی لاگو نہیں ہوتا،عدالت انتخابات نظرثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل تقریباً ہوچکے، اب کیس مکمل کرلینا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر ریویو ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل دینا ہوں گے، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہوچکا ہے؟ بتائیں کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو، الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس وسیع تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نیا نہیں، اس پر پہلے بحث ہوچکی، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے، انتخابات نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کا معاملہ قومی مسئلہ ہے، 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہےگا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں، دیکھنا تو یہ تھا کہ کیا انتخابات کے لیے 90 روز بڑھائے جاسکتے ہیں، کیا 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات میں التوا کے لیے درج ہیں؟ ہر چیز تشدد اور زور زبردستی سے نہیں ہوسکتی۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ کرنےکی استدعا کرتے ہوئےکہا کہ جو بھی حالات یا دلائل ہوں، عدالت پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ جلد کرے، 15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہوگیا، 15مئی کو انتخابات کی معینہ مدت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہوئی، ہر دن مجھے محسوس ہوتا ہےکہ آئین کا قتل ہوچکا، وزیراعظم، چیف جسٹس سمیت سب نےآئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب ریویو ایکٹ پاس ہوا تو سینیٹ میں کہا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہے ہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا اور وہاں بحث بھی نہیں ہوئی، آرٹیکل 184 تھری میں ترامیم اچھی ضرور ہیں مگر یہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق قوانین آئینی ترمیم سے ہی بنائے جاسکتے ہیں،

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے خیال میں حکومت نے آرٹیکل 184 تھری میں اپیل کا حق دیا جو خلاف آئین ہے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائےگئے وہ نظرثانی میں نہیں لائے جاسکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تھری سے متعلق اچھی ترامیم ہیں، صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آرٹیکل184 تھری پر نظرثانی کو اپیل قرار دے دیا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں حکومت نے غلطی کی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواست گزار ذاتی حثیت میں ہیں، اگر علی ظفر کو کیس میں فریق بننا ہے تو درخواست ڈال دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ وقت کی بچت ہو، اچھی بات یہ ہوئی ہےکہ حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنےکا فیصلہ کیا ہے، آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں قانون اور حقائق پر ہے، حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں،حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی،کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟ یہ جو انصاف کا کام ہم کررہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے، ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے۔

سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواست گزار زمان خان وردگ اور دوسرے درخواست گزار غلام محی الدین نے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپنالیے۔

بعد ازاں، عدالت نے داٸر درخواستوں پر سماعتیں منگل تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ تمام درخواستوں کو 13 جون کو سنیں گے۔

عدالت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس کے خلاف داٸر درخواستوں پر فریقین بشمول اٹارنی جنرل، وفاق اور صدرکوبذریعہ پرنسپل سیکرٹری کو نوٹسز جاری کردئیے۔

خیال رہے کہ 29 مئی کو سپریم کورٹ ریویوآف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ 2023 کے نفاذ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

نئے قانون کے تحت 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی، نئے قانون کے مطابق اپیل فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ سنے گا۔

نئے قانون کے تحت نظر ثانی کی درخواست کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہو گا، ماضی میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا تھا جس نے وہ فیصلہ دیا ہوتا تھا۔

یاسمین راشد کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل سماعت کیلئے مقرر

ملزمہ کےخلاف ٹھوس شواہد اور موقع کے گواہان موجود ہیں، مؤقف
اپ ڈیٹ 07 جون 2023 09:42am
داکٹر یاسمین راشد ہفتہ کو لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے موقع پر (اسکرین گریب/آج نیوز)
داکٹر یاسمین راشد ہفتہ کو لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے موقع پر (اسکرین گریب/آج نیوز)

جناح ہاؤس حملہ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل سماعت کیلئے مقرر کرلی گئی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ اپیل پر سماعت کرے گا۔

درخواست میں ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے حقائق کے برعکس یاسمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا، یاسمین راشد نے جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والوں کی ریلی کی قیادت کی، تمام ثبوتوں کے باوجود یاسمین راشد کو مقدمہ سے ڈسچارج کیا گیا۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں جناح ہاؤس جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے سے یاسمین راشد کی بریت کو حکومت پنجاب نے چیلنج کیا تھا۔

حکومت پنجاب نے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے توسط سے اپیل دائر کی تھی، جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے جناح ہاؤس پر حملے کی ہدایات دیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ یاسمین راشد پی ٹی آئی ورکرز کو جناح ہاؤس تک لے کر گئیں، ملزمہ کےخلاف ٹھوس شواہد اور موقع کے گواہان موجود ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت یاسمین راشد کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

چند روز قبل پنجاب پولیس نے پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی رہائی کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ہفتہ کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی کو کور کمانڈر لاہور کی رائش گاہ (جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے) میں توڑ پھوڑ سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کو بری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کی گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں رینجرز کی جانب سے بدعنوانی کے مقدمے میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے، اس دوران فوجی تنصیبات سمیت کئی نجی اور سرکاری املاک کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یاسمین راشد کو پی ٹی آئی کی 17 دیگر خواتین کارکنوں کے ساتھ ابتدائی طور پر مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا اور 13 مئی کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ان کی رہائی کا حکم دئیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یاسمین راشد پر 9 مئی کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق لاہور میں درج تین مقدمات میں بھی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

تاہم، طبی حالت کے پیش نظر پولیس نے اس وقت انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں سے انہیں کوٹ لکھپت جیل سے لے جایا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے انسداد دہشتگردی عدالت نے جناح ہاؤس توڑ پھوڑ کیس میں فوٹو گرافی ٹیسٹ کے لیے یاسمین راشد کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ دیا تھا اور وہ تب سے پولیس کی تحویل میں ہیں۔

ایک روز قبل لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے یاسمین راشد کی 23 دیگر ملزمان کے ساتھ رہائی کا حکم دیا تھا اور انہیں کیس سے بری کر دیا تھا۔ 9 مئی کے احتجاج سے متعلق دیگر مقدمات کی وجہ سے انہیں رہا نہیں کیا گیا۔

تاہم، ایک بیان میں پنجاب پولیس نے کہا ہے کہ ”ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت 9 مئی کے واقعے کے تمام سازشی، منصوبہ ساز اور مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔“

بیان میں کہا گیا کہ جناح ہاؤس حملہ کیس کی تحقیقات سائنسی خطوط پر کی جارہی ہیں۔

پنجاب پولیس کا یہ بیان یاسمین راشد کی بریت کے حوالے سے عمران خان کے ٹوئٹ کے جواب میں جاری کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ”عدالتی حکم کو چیلنج کیا جائے گا، کیونکہ پولیس کو کیس میں فرانزک ثبوت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ عدالت (اے ٹی سی) کے حکم کو ہائیکورٹ کے حکم کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔“

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ”پولیس کیس کی تحقیقات اور عوام کے سامنے سچ لانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔“

پولیس کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”اس مرحلے پر کوئی بھی قبل از وقت مفروضہ یا اندازہ گمراہ کن ہونے کا امکان ہے۔“

اے ٹی سی نے یاسمین کو ڈسچارج کر دیا

سرور روڈ پولیس نے جمعہ کو ڈاکٹر رشید اور دیگر کو لاہور انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) میں پیش کیا تھا۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ یاسمین راشد کا فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ، وائس میچ کرانے اور ان کا موبائل فون برآمد کرنے کے لیے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

یاسمین راشد کی جانب سے ایڈووکیٹ رانا مدثر عمر نے ریمانڈ کی مخالفت کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس ان کے مؤکل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یاسمین راشد ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں جن کو صحت کے متعدد مسائل ہیں اور پولیس کی تحویل میں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

جج عبہر گل خان نے ریمارکس دیئے کہ کیس ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ راشد کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ ضمنی بیانات کے ذریعے ملوث تھیں۔

جج نے نوٹ کیا کہ خاتون رہنما کو ایک شریک ملزم کے انکشاف کی بنیاد پر کیس میں طلب کیا گیا تھا، جس کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔

جج نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ یاسمین راشد کو کسی اور کیس میں مطلوب نہ ہونے کی صورت میں فوری رہا کیا جائے۔

تاہم پی ٹی آئی رہنما کو رہا نہیں کیا گیا کیونکہ وہ شادمان تھانے پر حملہ اور شیر پاؤ پل پر تشدد سمیت دو دیگر مقدمات میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو مزید بتایا کہ جناح ہاؤس حملہ کیس میں 126 ملزمان شناخت پریڈ کے عمل سے گزرے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شناخت پریڈ میں 23 مشتبہ افراد کو قصوروار نہیں پایا گیا، اس لیے انہیں کیس میں بری کیا جا سکتا ہے۔

جج نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کے 23 ملزمان کو بری کر دیا تھا۔