Aaj News

اتوار, اپريل 28, 2024  
19 Shawwal 1445  

14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں مگر فیصلہ تاریخ بن چکا، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نظرثانی ایکٹ اور پنجاب الیکشن کیس کی سماعت ایک ساتھ ہوئی۔
اپ ڈیٹ 07 جون 2023 12:49pm
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ اور پنجاب الیکشن کے معاملے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہے گا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں۔

منگل کو سپریم کورٹ میں ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے کی، دیگر 2 ججز میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ درخواستیں آئی ہیں، ریویو ایکٹ کا معاملہ کسی اسٹیج پر دیکھنا ہی ہے، اٹارنی جنرل کو نوٹس کر دیتے ہیں، ریویو ایکٹ پر نوٹس کے بعد انتخابات کیس ایکٹ کے تحت بینچ سنے گا، علی ظفر صاحب آپ بھی ریویو ایکٹ پراپنا نقطہ نظر بتادیں۔

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں بھی یہی معاملہ اٹھایا گیا تھا، سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع دے رکھا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حکم امتناع ریویو ایکٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے، سپریم کورٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کو سن سکتی ہے، سپریم کورٹ ریویوایکٹ حکم امتناع کی وجہ سے اس عدالت پر ابھی لاگو نہیں ہوتا،عدالت انتخابات نظرثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے، انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل تقریباً ہوچکے، اب کیس مکمل کرلینا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر ریویو ایکٹ لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل دینا ہوں گے، عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہوچکا ہے؟ بتائیں کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ ہو، الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس وسیع تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں، پنجاب انتخابات نظرثانی کیس نیا نہیں، اس پر پہلے بحث ہوچکی، الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے، انتخابات نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے تو الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل وہیں سے شروع کرسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتخابات کا معاملہ قومی مسئلہ ہے، 14 مئی کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں مگر یہ فیصلہ تاریخ بن چکا، عدالتی فیصلہ تاریخ میں رہےگا کہ 90 روز میں انتخابات لازمی ہیں، دیکھنا تو یہ تھا کہ کیا انتخابات کے لیے 90 روز بڑھائے جاسکتے ہیں، کیا 9 مئی کے واقعات کے بعد حالات وہ ہیں جو آئین میں انتخابات میں التوا کے لیے درج ہیں؟ ہر چیز تشدد اور زور زبردستی سے نہیں ہوسکتی۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ کرنےکی استدعا کرتے ہوئےکہا کہ جو بھی حالات یا دلائل ہوں، عدالت پنجاب انتخابات نظرثانی کیس کا فیصلہ جلد کرے، 15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہوگیا، 15مئی کو انتخابات کی معینہ مدت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہوئی، ہر دن مجھے محسوس ہوتا ہےکہ آئین کا قتل ہوچکا، وزیراعظم، چیف جسٹس سمیت سب نےآئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب ریویو ایکٹ پاس ہوا تو سینیٹ میں کہا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہے ہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا اور وہاں بحث بھی نہیں ہوئی، آرٹیکل 184 تھری میں ترامیم اچھی ضرور ہیں مگر یہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق قوانین آئینی ترمیم سے ہی بنائے جاسکتے ہیں،

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے خیال میں حکومت نے آرٹیکل 184 تھری میں اپیل کا حق دیا جو خلاف آئین ہے؟ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ جو نکات مرکزی کیس میں نہیں اٹھائےگئے وہ نظرثانی میں نہیں لائے جاسکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نےکہا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تھری سے متعلق اچھی ترامیم ہیں، صرف ایک غلطی انہوں نے یہ کی کہ آرٹیکل184 تھری پر نظرثانی کو اپیل قرار دے دیا، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں حکومت نے غلطی کی۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواست گزار ذاتی حثیت میں ہیں، اگر علی ظفر کو کیس میں فریق بننا ہے تو درخواست ڈال دیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ وقت کی بچت ہو، اچھی بات یہ ہوئی ہےکہ حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنےکا فیصلہ کیا ہے، آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں قانون اور حقائق پر ہے، حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں،حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی،کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟ یہ جو انصاف کا کام ہم کررہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے، ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے۔

سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کے خلاف درخواست گزار زمان خان وردگ اور دوسرے درخواست گزار غلام محی الدین نے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل اپنالیے۔

بعد ازاں، عدالت نے داٸر درخواستوں پر سماعتیں منگل تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ تمام درخواستوں کو 13 جون کو سنیں گے۔

عدالت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس کے خلاف داٸر درخواستوں پر فریقین بشمول اٹارنی جنرل، وفاق اور صدرکوبذریعہ پرنسپل سیکرٹری کو نوٹسز جاری کردئیے۔

خیال رہے کہ 29 مئی کو سپریم کورٹ ریویوآف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ 2023 کے نفاذ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔

نئے قانون کے تحت 184/3کے تحت فیصلوں پر 60 دن میں نظر ثانی اپیلیں داخل کی جاسکیں گی، نئے قانون کے مطابق اپیل فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا بینچ سنے گا۔

نئے قانون کے تحت نظر ثانی کی درخواست کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہو گا، ماضی میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا تھا جس نے وہ فیصلہ دیا ہوتا تھا۔

CJP

اسلام آباد

justice umer ata bandiyal

Supreme Court of Pakistan

Supreme Court Review of Judgments and Ordinance

Supreme Court Review of Judgements and Orders Act 2023

Politics June 7 2023

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div