اقبال کے ابتدائی شعر بے وقعت نہ تھے
ناقدین کی جانب سے ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ اقبال کا ابتدائی کلام ان کی فکر کو ظاہر نہیں کرتا اور یہ بھی کہ ان کے اشعار بے وقعت اور عام سے تھے۔ اس کا جواب اقبال کے عہد کے ایک مصنف شیخ عبدالقادر اس طرح دیتے ہیں۔
’انتہائی نو عمر اقبال لاہور کی ایک محفل میں شریک ہوئے اور یہ شعر پڑھا،
تم آزماؤ ہاں کو زبان سے نکال کے
یہ صدقے ہوگی میرے سوال ِ وصال کے
مطلع کا پڑھنا تھا کہ کئی سخن آشنا کے کان متکلم کی طرف لگ گئے، اور کئی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ مشاعرہ میں یہ رسم تھی کہ میزبان شاعر کی تعریف کرکے اس سے حاضرین کی شناسائی کرا دیتا تھا۔ مگر اس نوجوان منچلے شاعر کو خود میزبان جانتا تک نہیں تھا۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ پہلے حضرت کی تعریف تو فرمائیے۔ نوجوان شاعر نے کہا
’لیجیئے میں خود عرض کئے دیتا ہوں کہ میں کون ہوں، خاکسار کو اقبال کہتے ہیں، اور یہی میرا تخلص ہے۔ سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں اور یہاں کے سرکاری کالج میں بی اے کی جماعت میں پڑھتا ہوں۔ حضرت داغ سے تلمذ کا فخر حاصل ہے۔‘
اس کے بعد چند شعر پڑھے تو قریب قریب ہر شعر پر بے ساختہ داد ملی۔ یہاں تک کہ اس شعر تک پہنچا،
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لئے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
مشاعرے میں مرزا ارشد گورگانی دہلوی تشریف رکھتے تھے بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھے اور بولے’’میاں اقبال اس عمر میں، اور یہ شعر!‘‘ اور واقعی اس رنگ کی کہنے والے کی عمر اور وضع سے توقع نہیں ہوسکتی تھی۔
علامہ اقبال کی پیش گوئیاں
1912ء میں حضرت علامہ نے شمع اور شاعر پڑھی تھی اس میں بعض واضح پیش گوئیاں تھیں جو خدا کے فضل سے پوری ہوچکی ہیں۔ لیکن 1912ء میں میرے علم کی حد تک کسی کو احساس بھی نہ تھا یہ نظم پیش گوئیوں پر مشتمل ہے۔
حضرت علامہ کی اس نظم کے سلسلے میں ایک جھگڑا رونما ہوا۔ انجمن کے اجلاسوں کی صدارت کے لئے وہ اصحاب تجویز کئے جاتے تھے جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم فراہم ہوسکے۔ اتفاقیہ اس سال 2 ایسے اصحاب تھے جن کے ذریعے بڑی رقم وصول ہونے کا امکان تھا اور وہ دونوں اصرار کر رہے تھے کہ اقبال کی نظم ان کی صدارت میں ہو۔ آخر اس مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ ان دونوں کی صدارتیں یکے بعد دیگرے ہوں۔ شمع اور شاعر کے ابتدائی 6 بند ایک صدر کے اجلاس میں پڑھے جائیں۔ پھر علامہ کچھ وقت آرام کریں اور باقی بند دوسرے کی صدارت میں پڑھے جائیں۔
شمع اور شاعر مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے اپنے پریس میں چھپوادی تھی۔ 10 ہزار کاپیاں چھاپی گئی تھیں اور ہر کاپی کی قیمت خلاف معمول 8 آنے رکھی گئی۔ مولانا ظفر علی خاں نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ اس طرح نظم کی کاپیاں بِک جانے سے 5 ہزار روپے وصول ہوں گے اور یہ رقم ڈاکٹر اقبال کے حوالے کرکے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ تبلیغ اسلام کے لئے جاپان چلے جائیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔