نیلم جہلم منصوبہ بندش کے باوجود بجلی صارفین سے اربوں اضافی لیے جانے کا انکشاف

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اضافی رقم فوری صارفین کو واپس کرنے کی ہدایت کردی
شائع 09 مارچ 2023 05:47pm
فائل ــ فوٹو
فائل ــ فوٹو

نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہونے کے باوجود بجلی صارفین سے 9 ارب روپے اضافی وصول کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

نیلم جہلم منصوبہ مکمل ہونے کےباوجود بجلی صارفین سے اربوں روپے وصول کیے گئے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ منصوبہ مکمل ہونے کے باوجود 9 ارب روپے کا نیلم جہلم سرچارج صارفین سے وصول کیا گیا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے صارفین سے اضافی رقم وصول کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیلم جہلم سرچارج فوری صارفین کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا کہ 7 ارب 10 کروڑ روپے کی رقم نیلم جہلم کمپنی کو جاری ہوچکی ہے۔ ڈسکوز کے پاس صرف 2 ارب 90 کروڑ روپے موجود ہیں۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے یقین دہانی کروائی کہ جو رقم ڈسکوز کے پاس موجود ہے وہ فوری طور پر صارفین کو واپس کردیں گے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیلم جہلم کمپنی سے سرچارج کی رقم فوری واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سی ای اوز کے تقرر کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا۔

پی اے سی چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ کمپنی سی ای او کا تقرر اسی کمپنی کا بورڈ کرے جس پر سیکرٹری پاور ڈویژن نے جواب دیا کہ اسی پارلیمنٹ نے کچھ ماہ قبل بل منظور کیا تھا۔

سیکرٹری پاور ڈویژن کے جواب پر نور عالم خان نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ کیا ارکان پارلیمنٹ آنکھیں بند کر کے بل منظور کرتے ہیں، ہمیں اب پتا چلا کہ کمپنیوں کے بورڈ ممبرز کیسے آتے ہیں۔

پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے تجویز دی کہ کمپنیوں کے سی ای اوز کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے اور معاملہ پر حکومت کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پی اے سی نے پاور ڈویژن کے آڈٹ پیراز سے متعلق انکوائریاں ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بجلی کی جبری لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ پر برہمی کا اظہار کیا۔

رکن کمیٹی وجیہہ قمر نے کہا کہ اوور بلنگ کے مسئلے پر فارنزک آڈٹ کروا لیں، گالیاں سیاستدان کھا رہے ہوتے ہیں۔

نور عالم خان نے کہا کہ بل پر 24 اور 26 تاریخ دی جاتی ہے ان تاریخوں میں لوگوں کی جیب میں کچھ نہیں ہوتا۔

سیکرٹری پاور ڈویژن نے جواب دیا کہ بجلی کے ساڑھے تین کروڑ صارفین ہیں جنھیں ایک ہی وقت میں بجلی کے بل جاری نہیں کر سکتے، اس مقصد کے لیے اضافی ملازمین بھرتی کرنے پڑیں گے جس سے خزانے پر بوجھ پڑے گا۔