Aaj News

جمعرات, مئ 09, 2024  
30 Shawwal 1445  

شوکت صدیقی کیس میں فیض حمید کو فریق بنانے کیلئے ایک دن کی مہلت

ملک کی تباہی اس ہی وجہ سے ہوتی ہے شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2023 11:07am
فوٹو:اسکرین گریپ
فوٹو:اسکرین گریپ

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جج شوکت صدیقی کی برطرفی سے متعلق سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک کی تباہی اس ہی وجہ سے ہوتی ہے شخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے شوکت صدیقی کیس میں فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے ایک روز کی مہلت دیدی۔

سپریم کورٹ میں معزول جج اسلام آبادہائیکورٹ شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ کا حصہ ہیں۔

شوکت صدیقی کی برطرفی سے متعلق سماعت براہ راست دکھائی جارہی ہے، سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ، یوٹیوب پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست پرگزشتہ سماعت کب ہوئی تھی۔ جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ آخری سماعت 13جون 2022 کو ہوئی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس طارق، جسٹس اعجازالاحسن نے بینچ میں شمولیت سے انکار کیا، میں نے کسی کو بینچ سے نہیں ہٹایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہوتی ہے اتفاق رائے یا جمہوری طریقے سے کمیٹی میں چلیں، موبائل اٹھا کر صحافی بننے والوں کو سوچنا چاہئے پریکٹس اینڈ پروسیجر پر فیصلہ آچکا، جمہوریت کی جانب جا رہے ہیں عدالت میں بھی جمہوریت آرہی ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ جمہوریت اس وقت مشکل میں ہے۔

شوکت عزیزکی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض

وفاقی حکومت کی جانب سے بیرسٹرصلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت درخواست کی مخالفت کرے گی۔

وفاقی حکومت نے شوکت عزیز کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کردیا۔

وکیل حامد خان نے جسٹس شوکت عزیز کی برطرفی کاباعث بننے والی تقریر پڑھی، اور کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی ایک ریفرنس دائر ہوا تھا، شوکت عزیز پر ایک ریفرنس سرکاری گھر کی تزئین وآرائش کا بھی تھا، اور ان کے خلاف درخواست گزار جمشید دستی، سی ڈی اے افسر اور وکیل کلثوم خالق تھے، جس ریفرنس پر شوکت عزیز کی برطرفی ہوئی وہ سپریم جوڈیشل کونسل نےسوموٹو لیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کوتقریرکا کیسے معلوم ہوا۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو نوٹ لکھا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا شوکت عزیزصدیقی کی تقریر تحریری تھی۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیزصدیقی نے فی البدیہہ تقریر کی تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟

جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ جنرل فیض حمید ایک برگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا۔ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کررہے تھے اس لئے فریق نہیں بنایا۔ فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی پر الزام نہ لگائیں، جن پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق بنائیں، حامد خان صاحب ادارے برے نہیں ہوتے لوگ برے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنے کا ایک فیشن چل گیا ہے، اداروں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں،آپ کسی کو بچانا چاہتے ہیں تو بتائیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میں چاہتاہوں کہ ان کو بلایا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو بلانا پڑے گا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، درخواست دینا ہوگی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے اپنی درخواست میں ان کو بلانے کا ذکر کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے غلط کیا ہے آپ کو وزارت دفاع کو فریق بنانا چاہئے تھا، ملک کی تباہی اس ہی وجہ سے ہوتی ہےشخصیات کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہتے ہیں، اداروں کو لوگ چلاتے ہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے کا جوڈیشل کونسل نے موقع نہیں دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب تو آپ کے پاس موقع ہے اب کیوں نہیں فریق بنا رہے، کسی کی پیٹھ پیچھےالزام نہیں لگانے دیں گے، اس اعتبار سے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ درست ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فیض حمید کو فریق بنانے پر اعتراض نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فریق بنا کر ہم پر احسان نہ کریں، اداروں پرالزام نہیں لگانے دیں گے، ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کسی پر الزام لگے تو سب کے سامنے ہونا چاہئے، یقین ہے آپ کے موکل نے کبھی کسی کو پارٹی بنائے بغیر فیصلہ نہیں کیا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا الزام ایک شخص پر ہے یا ادارے پر؟

جس پر حامد خان نے کہا کہ عدالت میں جمع کرائی گئی متفرق درخواست میں فیض حمید اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر کا گھر آنے کا ذکر کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ کا الزام ایک فرد پر ہے تو اسے فریق تو بنائیں، ادارے نہیں بولتے، ادارے میں بیٹھی شخصیات ہی بولتی ہیں، میرا اصول ہے کہ جس پرالزام لگاؤ اس کو سنو، ممکن ہے وہ الزامات تسلیم کر لے، یہاں صحافی بیٹھے ہیں اور کل اس شخص کا نام اخبارات کی زینت بن جائے گا، ہم کسی کو کچھ لکھنے سے تو نہیں روک سکتے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں اسے فریق بنانا چاہتے ہیں یا نہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں کیا اس نے کسی فورم پر آپ کو جواب دیا؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے اس شخص کو نوٹس کیا تھا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں انہیں سنے بغیر نکالا گیا، آپ بھی فیض حمید وغیرہ کو بغیر موقف پیش کئے فیصلہ کروانا چاہتے ہیں، شوکت عزیزصدیقی نے بطور جج کبھی کسی کو سنے بغیر اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا ہوگا، ممکن ہے جن پر الزامات لگ رہے وہ شوکت عزیز صدیقی کے الزام کی تصدیق کر دیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کئی لوگ بعد میں تسلیم کر لیتے ہیں کہ دباؤ میں کام کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی جج کرپٹ ہو تو الزام ضلعی عدلیہ پر نہیں اس جج کے خلاف لگے گا۔

حامد خان اور بار کونسلز نے فیض حمید کو فریق بنانے کیلئے درخواست دینے کی استدعا کر دی۔

چیف جسٹس نے درخواست پر کہا کہ سردیوں کی چھٹیاں آرہی ہیں، آئندہ سماعت پر صرف فریقین کو نوٹس ہی جاری ہوں گے، حامد خان صاحب آپ ہچکچا رہے ہیں اس لئے سماعت جنوری میں رکھ لیتے ہیں، کس کو فریق بنانا ہے یہ ہمارا کام نہیں، لیکن جو فریق نہ ہو اس پر الزام نہیں لگانے دیں گے، فریق نہیں بنانا تو شخصیات کے نام نکال کر نئی درخواست دائر کریں، اگر فریق بنانے کی درخواست آج دائر کرتے ہیں تو کل نوٹس جاری کر دیں گے۔

جس کے بعد حامد خان نے آج ہی فیض حمید اور انور کانسی کو فریق بنانے کی درخواست دائر کرنے کی یقین دہانی کرا دی اور کہا کہ جن پر الزام لگایا ہے انہیں فریق بنانے کی درخواست کل تک دائر کر دیں گے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 10 تک ملتوی کردی۔ اور چیف جسٹس نے دن کی سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا۔

بعد ازاں، شوکت عزیز صدیقی نے فریقین کے نام شامل کر کے متفرق درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کو فریق بنانے کی استدعا کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ بریگیڈئیر (ر) عرفان رامے اور بریگیڈئیر (ر) فیصل مروت کو بھی فریق بنایا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی فریق بنایا جائے۔

شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا معاملہ

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:

سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اُس وقت کے سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے بیان پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق جج شوکت عزیز کی کیس کی جلد سماعت کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

شوکت عزیز صدیقی نے عہدے سے ہٹانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائر کر رکھی تھی۔

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

Live Coverage

Shaukat Aziz Siddique

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div