Aaj News

جمعرات, مئ 09, 2024  
30 Shawwal 1445  

پی ٹی آئی کیخلاف الیکشن کمیشن حکمنامے سے پیپلز پارٹی کو نقصان

پارٹی کے 7 امیدوار 'آزاد' ہوگئے، پی ٹی آئی نے پی پی کی حکمت عملی ہی نقل کی تھی
شائع 15 جنوری 2024 07:43pm
پی پی کے امیدوار برسوں سے پی پی پارلیمنٹرینز کے نشان پر الیکشن لڑتے آ رہے ہیں۔
پی پی کے امیدوار برسوں سے پی پی پارلیمنٹرینز کے نشان پر الیکشن لڑتے آ رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کو بلے کے بعد بلے باز کے انتخابی نشان سے روکنے کیلئے الیکشن کمیشن نے ہفتہ کو جو حکم نامہ جاری کیا اس کا نقصان بظاہر پیپلز پارٹی کو ہوا ہے جس کے7 امیدوار تیر کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئے ہیں۔

آزاد قرار دیئے جانے والے یہ امیدوار آئندہ حکومت بنوانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بلے کے بجائے بلے باز کے نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے جو حکمت عملی بنائی تھی جو پیپلز پارٹی نے برسوں سے اپنا رکھی ہے۔

پی ٹی آئی کا منصوبہ تھا کہ وہ الحاق کے ایک معاہدے کے تحت اپنے امیدواروں کو پی ٹی آئی نظریاتی کے انتخابی نشان ’بلے باز‘ پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے گی۔

پیپلز پارٹی برسوں سے یہی کرتی آ رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جس پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں اس کا انتخابی نشان تلوار ہے تیر نہیں۔ پی پی کے امیدوار جس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہیں وہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز ہے جس کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں اور ٹکٹ بھی انہی کے دستخطوں سے جاری ہوتے ہیں۔

انتخابی ٹکٹ اس بات کا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے کہ امیدوار مذکورہ جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔

تاہم ہفتہ کی شام الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک حکم نامے میں کہا کہ اکثرامیدواروں کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں الیکشن کمیشن کودھوکا دیا جارہا ہے اور قانون کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، آراوزایسے کسی امیدوار کو دوسرا انتخابی نشان نہ دیں۔

الیکشن کمیشن نے آر اوز سے کہاکہ جوامیدوار کسی اورجماعت کا ممبرہواوردوسری جماعت کا نشان مانگے اسے دوسری پارٹی کا نشان نہ دیا جائے۔

الیکشن کمیشن کی ان ہدایات کی روشنی میں ریٹرننگ افسران نے پی ٹی آئی نظریاتی کے جاری کردہ ٹکٹ قبول نہیں کیے۔ جب کہ بعد میں پی ٹی آئی نظریاتی کے سربراہ اختر اقبال ڈار نے بھی ان ٹکٹوں سے لاتعلقی ظاہر کردی اور انہیں جعلی قرار دے دیا۔

لیکن الیکشن کمیشن کے احکامات کا اطلاق پیپلز پارٹی پر بھی ہوگیا۔ جن 7 امیدواروں کو تیر کا نشان نہیں ملا ان میں سے بعض کو آخر وقت پر ٹکٹ جاری ہوئے تھے۔

مثال کے طور پر چکوال سے ذوالفقار دلہہ کو آخری وقت میں پی پی کا ٹکٹ ملا۔ وہ 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور نومبر میں انہوں نے پی ٹی آئی سے راستے جدا کیے اور استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن پیپلز پارٹی سے ان کے معاملات چند روز قبل طے ہوئے اور انہیں 13 جنوری کو این اے 58 سے پی پی کا ٹکٹ بھی مل گیا۔ انہیں دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری تیمور علی خان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور انہوں نے ذوالفقار دلہہ کے حق میں دستبرداری کا اعلان کردیا۔

چوہدری تیمور علی خان پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 20 سے بھی امیدوار ہیں اور ذوالفقار دلہہ کے حق میں دستبرداری کے بدلے انہیں پیپلز پارٹی کی حمایت ملی ہے۔ لیکن ذوالفقار دلہہ کے آزاد امیدوار بن جانے سے پیپلز پارٹی کی سرمایہ کاری ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے۔

Pakistan People's Party (PPP)

Election 2024

PTI bat symbol

PTI Nazriati

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div