اپر کرم ۔۔۔۔ بااختیار خواتین کی سرزمین
سینٹرل کرم کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی خاتون عائشہ گل نے جب اپنے گھر والوں کو بتایا کہ وہ گھر کے اندر ایک چھوٹی سے دکان شروع کرنا چاہتی ہے، جس میں وہ خواتین کی ضروریات کی چیزیں بیچے گی تو گھر والے اُس پر ہنس پڑے، بلکہ کچھ نے تو اُس کی سخت مخالفت بھی کی اور سامان لانے سے انکار کیا۔ لیکن عائشہ نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ایک بھائی کو اپنے سونے کے زیور دے کر اُنہیں بیچنے اور دکان کے لئے سامان لانے پر راضی کر لیا۔ عائشہ نے بتایا کہ بھائی نے چپکے سے اس کے زیور بیچ کر سامان خریدا اور اس نے گھر میں ہی چیزیں فروخت کرنے کا آغاز کیا۔ عائشہ گل کے مطابق ’دکان سے میں نے نہ صرف اپنے زیور کی قیمت بھی پوری کر لی بلکہ اب روزگار بھی چل پڑا ہے تو سب راضی بھی ہوگئے‘۔
یہ کہانی صرف عائشہ کی نہیں بلکہ ان ہزراوں خواتین کی ہے جو اپر کرم کے کئی علاقوں میں گھر کے اندر یا مارکیٹ میں چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔
گاؤں شلوزان سے تعلق رکھنے والی خاتون شیرین بی بی نے بھی خواتین کیلئے ایک دکان کھول رکھی ہے جس میں منیاری کی چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ شیرین بی بی نے بتایا کہ ان کی دو دکانیں ہیں ایک پاراچنار شہر میں دوسری گاؤں میں جبکہ ماہانہ آمدن کے حساب کا گاؤں کی دکان کی شرح آمدن شہر کی دکان سے زیادہ ہے۔
اپر کرم کے علاقے لقمان خیل سے تعلق رکھنے والی خاتون ملطان بیگم جنہوں نے گھر میں ایک چھوٹی سی دکان کھول رکھی ہے، نے آج نیوز کو بتایا کہ میری روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپے کی سیل ہوتی ہے وہ بڑے شہروں سے کپڑا اور خواتین کے ضروریات کی چیزیں لاتی ہیں جس کو مقامی خواتین بہت شوق سے خریدتی ہیں۔
ضلع کرم میں ایک ایسا بیوٹی پارلر بھی ہے جہاں خواتین ماہانہ لاکھوں روپے کماتی ہیں اور کبھی کبھار ڈیمانڈ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ گھروں کے اندر خواتین کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
پاراچنار کے حسینی کالونی کی زینب کے والد نے کہا کہ ’میری بیٹی کے بیوٹی پالر میں دور دراز علاقوں سے خواتین آتی ہیں ہمارے گھر کا 80 فیصد خرچہ میری بیٹی چلاتی ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میری بیٹی کی مہینہ آمدن ڈھائی لاکھ روپے تک بن جاتی ہے پچاس ہزار خرچہ نکال کر دو لاکھ منافع نکلتا ہے۔

اپر کرم بااختیار خواتین کی سرزمین
ضلع کرم خواتین کی تعلیم اور روزگار میں شمولیت کے اعتبار سے باقی قبائلی اضلاع کی نسبتا بہتر حییثیت رکھتا ہے اور خواتین بغیر کسی پابندی کے کاروبار بھی کرتی ہیں۔ آج بھی ضلع کرم کے گاؤں کی سطح پر درجنوں دکانیں ، شاپنگ سینٹر ، سلائی سینٹرز ، بیوٹی پارلرز ، قالین اور دستکاریوں کے سینٹرز وغیرہ دکھائی دیتے ہیں جہاں خواتین اپنا کام بغیر کسی خوف کے کرتی ہیں ۔
اب تک عوامی سروے کے مطابق گاؤں اور شہر کی سطح پر 500 سے زائد شاپنگ سینٹرز، 100 سے زیادہ بیوٹی پارلرز، 20 تک سلائی سینٹر اور تقریباً 20 تک دستکاری کے مراکز موجود ہیں، 500 سے زیادہ شاپنگ سینٹر جس میں خواتین نے اپنے گھروں کے اندر چلائی جانے والی دکانوں میں کپڑا ، کاسمیٹکس ، سمیت دیگر چیزیں فروخت کرتی ہیں اور ان دکانوں سے آمدنی بھی حاصل کرتی ہیں۔
ضلع کرم کے انتہائی پسماندہ گاؤں جس میں ملا باغ ، کس ، سینٹرل کرم کے مختلف دیہات ، تری منگل ، وغیرہ میں بھی اس طرح دکانوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اب تک پرائیویٹ سلائی سنٹرز کے علاوہ ضلع کرم کی تین تحصیلوں میں ان کے مراکز فعال ہیں جس میں لوئر کرم ، سینٹرل کرم اور اپر کرم میں خواتین کیلئے سیلائی ، بیوٹی پارلر، وغیرہ کے مراکز چلائے جا رہے ہیں۔ جس میں 6 ماہ بعد 25 خواتین کو انرول کیا جاتا ہے کورس مکمل ہونے کے بعد ان کو مشینیں اور دیگر ضروری سامان دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنا لاروبار شروع کر سکیں۔
ضلع کرم میں دستکاری ، پولٹری فارم ، ڈیری فارمز ، قالین بنانا اور سکیچنگ کرنے کا کاروبار بھی سب سے اعلیٰ ہے، خواتین گھروں میں استعمال ہونے والی ہاتھ سے بنائی گئی مختلف اشیا مارکیٹ میں بیچ کر اچھا خاصا پیسہ کماتی ہیں۔
معاشی خودمختاری کے ذندگی پر مثبت اثرات
نفسیات ڈاکٹر کلثوم نے آج نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کا خود پیسہ کمانا عورت کے اندر خود پر اعتبار کا عنصر پیدا کرتا ہے، وہ خود کو ایک کارآمد فرد کی طرح سمجھتی ہے اور یہ احساس اسے روزمرہ زندگی کے اصولوں اور جینے کے طریقے میں ایک خوشگوار احساس کی طرف لے جاتا ہے جو اسکی زہنی اور جسمانی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔

خواتین کی معاشی خود مختاری اور مقامی سطح پر ہونے والی کوشیش
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے زیر اہتمام مقامی خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے خیبر کاروبار سپورٹ پروگرام ، انصاف روزگار سکیم سے مدد لی جا رہی ہے جبکہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ضلع کرم کی تینوں تحصیلوں میں سلائی کڑھائی اور بیوٹی پارلر کے تین سنٹر میں روزانہ کی بنیاد پر خواتین کپڑے بنانا ، اور میک اپ وغیرہ سیکھتی ہیں۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ پاراچنار کے مطابق اب تک 850 خواتین یہ کورس مکمل کر چکی ہیں ۔ ضلعی سطح پر خواتین میں سینکڑوں مشین بھی تقسیم کی جا چکی ہیں ۔گذشتہ ماہ ایم این اے حمید حسین اور ایم پی اے اپر کرم علی ہادی کے ہاتھوں 70 سے زیادہ مشین خواتین میں تقسیم کی گئیں ۔
ایم پی اے علی ہادی عرفانی کا کہنا ہے کہ خواتین کو ہمارے معاشرے میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، ہمارا ارادہ ہے کہ انکے لئے ایسا سنٹر بنایا جائے جہاں خواتین سکولوں کے یونفارم بنا سکیں اس طرح سے باہر سے یونیفارم منگوانے کی بجائے مقامی خواتین کے زریعے انکی تیاری سے آمدنی علاقے میں ہیں رہے گی۔
حالیہ کشیدگی معاشی خودمختاری کی راہ میں رکاوٹ بن گئی

لیکن حالیہ کشیدگی نے خواتین کے کاروبار کو بھی بے حد متاثر کیا ہے سامان وقت پر نہ پہنچنا اور ڈیمانڈ کے وقت پر پورا نہ ہونے سے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس پر علاقہ خواتین نے حکومت سے معاملات کو پر امن طریقے سے سلجھانے اور راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔












اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔