شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ ایک ضرورت مند کسی بزرگ کی خدمت میں حاظر ہوا اور امداد چاہی، اتفاق سے ان دنوں بزرگ کا ہاتھ تنگ تھا لہذا انہوں نے معذرت کے لی، کہاوت مشہور ہے کہ ضروت مند بدلاؤ ہے، اس شخص کو بزرگ کی بات پر یقین نہ آیا اور وہ بڑبڑاتا ہوا مکان سے باہر نکل گیا اور انہیں برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
اتنے میں ایک مرید اس شخص کے پاس سے گزرا تو اپنے مرشد کے بارے میں غلط کلمات سن کر سیدھا بزرگ کے پاس پہنچا اور انہیں تمام حقیقت بیان کی۔
تمام قصہ سننے کے بعد مرشد نے فرمایا اصل تکلیف مجھے اس نے نہیں تو نے دی ہے وہ جو کچھ بھی کہہ رہا تھا اس کی مجھے آگاہی نہیں تھی جبکہ تو نے مجھے آگاہ کر دیا۔
تیری مثال تو ایسی ہے جیسے کسی دشمن نے میری طرف تیر پھینکا ہو اور وہ میری جانب آنے سے پہلے گر گیا ہو مگر تو اسے اٹھا کر لایا ہو اور چبھا دیا ہو۔
شیخ سعدی نے اس حکایت میں چغل خوری کی مزمت کی ہے کہ یہ اخلاقی برائی انسانی معاشرے میں بہت سی خرابیوں کا باعث ہے۔ یہ طریقہ ہر گز پسندیدہ نہیں کہ کسی کی زبان سے بات سنی اور فوراً آگے پہنچا دی۔ ایسا شخص تو گویا دشمن کے ا س تیر کو کارآمد بنا دیتا ہے جو نشانے پر پہنچنے کی سکت نہیں رکھتا۔
اس کے لئے بہت ضروری ہے کہ پہلے اچھی طرح بات کی چھان بین کر لی جائے اور بعد میں لب کشائی کی جائے۔