حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد دانا کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک جگہ ایک شرابی کو دیکھا۔ وہ شرابی زمیں پر بے سدھ پڑا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر وہ شخص بہت متاسف ہوا۔
وہ شخص اس کے قریب رک کر اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ اتفاق سے اسی وقت وہ بد مست شرابی بھی کسی قدر ہوش میں آگیا۔ اس نے اس شخص کو اپنی طرف نفرت سے دیکھتے پایا تو بولا کہ جب کوئی عام انسان ایسے مقام سے گزرتا ہے جہاں بے ہودگی کی کوئی بات ہو وہ تو دامن بچا کر شائستگی سے گزر جاتا ہے۔ اور تم جو اتنے عقلمند اور دانا ہو پھر بھی نفرت سے میری طرف دیکھ رہے ہو۔ تمہاری دانائی اور اچھائی کس کام کی جب تم اس پر تکبر کرتے ہو اور دوسروں کو حقارت سے دیکھتے ہو۔
اپنی جانوں پہ کیا کرتے ہیں جو ظلم مدام ؎
فرض تو یہ ہے کہ ایسوں کی کرے کچھ امداد
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں معاشرے کی اصلاح اور بری عادتوں میں مبتلا لوگوں کو راہ راست پر لانے کا بہت ہی گہرا اصول بتایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برائی میں گرفتار نظر آئے تو حسن سلوک سے پیش آئے اور اس کی اصلاح کرے۔ نہ کہ اس شخص کی طرح جو عقلمند ہونے کے باوجود بھی ایسے لوگوں کو برا بھلا کہے اور لعن طعن کرے۔ ایسا رویہ صرف برائیوں کو اور پختہ کر دیتا ہے۔ البتہ حسن سلوک ان پر شرمندگی کی کیفیت طاری کرتا ہے اور وہ اس شرمندگی سے اپنی برائیوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔