وہ آیا، سوچا اور کر دکھایا، عمران خان کی زندگی اس کا عملی نمونہ ہے، انیس سو بانوے میں کرکٹ ٹیم کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگایا، اسپتال بنانے کا خواب دیکھا اور پاکستان میں کینسر کا سب سے بڑا اسپتال بنا کر دکھایا۔
اس بار کپتان نے قوم کو ایک نئے پاکستان کا خواب دکھایا ہے اور اب انتظار اس کے تعبیر ہونے کا ہے ۔
پچیس مارچ اُنیس سو بانوے کی وہ سرد شام بھولے نہیں بھولتی جب عمران خان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے تاریخ بدل ڈالی، انگلینڈ کو مات دے کر قوم کو ورلڈکپ کا تحفہ دیا، اس فتح نے عمران خان کو ہمیشہ کیلئے کپتان بنا ڈالا، عروج کی ایسی منزلوں پر پہنچایا جو کسی کسی کو ہی نصیب ہوتی ہیں۔
عمران خان نے کرکٹ سے رشتہ توڑا تو سماج کی خدمت کا بیڑہ اٹھالیا، لاہور میں ایشیا کے سب سے بڑے کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے عزم و حوصلے اور کامیاب حکمت عملی سے فلاحی اسپتال کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
سماجی خدمت کا یہ جذبہ چنگاری بن کر کپتان کے دل میں شعلہ پلتا رہا، قوم کی دگر گوں حالت نے خان صاحب کو ایک پل بھی چین نہ لینے دیا، اور یوں صرف چار سال بعد انیس سو چھیانوے میں عمران خان نے ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ جس کا مقصد معاشرے کے مظلوم ومحکوم طبقے کو جائز حقوق دلانا اور سماج میں موجود بے انصافی کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنا تھا۔
ایک سال بعد ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا لیکن کپتان اور اُن کی جماعت کا نصب العین عوام کے دلوں اور ملک میں جگہ نہ بناسکا پر کپتان نے ہمت نہ ہاری۔ انیس سو ننانوے میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور صدارتی ریفرینڈم کرایا تو عمران خان نے اُس وقت جنرل مشرف کا ساتھ دیا۔ لیکن دوہزاردو کے عام انتخابات میں عمران خان کو اس ساتھ کا فائدہ نہ ہوا۔ اور وہ صرف ایک سیٹ ہی لینے میں کامیاب ہوسکے۔ عمران خان پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
خان صاحب نے پارلیمان میں رہتے ہوئے ملک کے بہتر مستقبل کیلئے قانون سازی میں اپنا مؤثر اور مثبت کردار ادا کیا، پاکستان کو امریکی جنگ میں دھکیلنے کیخلاف آواز اٹھائی اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، سیاسی حالات پر اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اپنا کردار نبھایا، رکنیت سے استعفا دیا اور الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جب قوم کو ایک لیڈر کی ضرورت تھی، کپتان کی کرشماتی شخصیت اور پروگرام میں قوم کو اُمید کی جھلک دکھائی دی، خان صاحب کا ویژن دیکھتے ہی دیکھتے ہر دل میں گھر کر گیا، تحریک انصاف کے جلسے عوام کیلیے ایک مثال بن گئے اور بڑے بڑے گراؤنڈ چھوٹے پڑگئے۔
دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو خان صاحب اپنے پیغام کے پرچار کیلئے ہر بستی اور وادی جا پہنچے، عوام سے تعاون مانگا، صرف وعدے نہیں کیے بلکہ قوم کو ایک نئی راہ دکھائی لیکن الیکشن سے صرف چار روز قبل لفٹر سے گر کر بری طرح زخمی ہوگئے، یہی وہ دن تھا جب کپتان نے اپنے وعدوں کو اپنے عمل سے ثابت کیا۔
بیرون ملک علاج کے بجائے لاہور کے شوکت خانم اسپتال میں علاج کو ترجیح دی صرف یہ ہی نہیں بلکہ زخمی خان صاحب نے اسپورٹس مین شپ کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے اسپتال کے بستر سے اپیل کی کہ قوم ووٹ دے اور ملک بدل دے۔ کپتان کو ووٹ ملے اور خیبرپختونخوا کا اقتدار حصے میں آیا اور پھر خیبرپختونخوا میں تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوا۔
نظام حکومت میں واضح تبدیلی آئی، تعلیم اور پولیس بہتر سے بہترین کے سفر پر گامزن ہوئی، کپتان نے چین نہ لیا، نا انصافی کیخلاف جدوجہد کا دائرہ ہر گلی اور کوچے تک پھیلا دیا، یہاں تک کہ دوہزار اٹھارہ الیکشن نے دستک دی، کپتان کا پیغام بھی دلوں پر دستک دے چکا تھا۔
پچیس جولائی کا سورج پاکستان میں تبدیلی کی نوید لیے طلوع ہوا ،اُفق پر پھیلی روشنی نے پیغام دیا کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آچکی ہے بس اب دل میں ایک ہی دعا ہے۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو