.نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں
بچوں پر تشدد : ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی
ایک زمانہ تھا والدین بچوں کو استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہتے تھے،ہڈیاں ہماری گوشت آپ کا،اسے پڑھائیں لکھائیں اور کام کا آدمی بنائیں۔حال ہی میں ایک مدرسے کے استاد کی جانب سے ایک بچے پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وبائی ہوئی تو شام تک نہ صرف استاد لاک اپ میں تھا، بلکہ ہر جگہ اس بات کا چر چا تھا۔
ایک زمانہ تھا والدین بچوں کو استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہتے تھے،ہڈیاں ہماری گوشت آپ کا،اسے پڑھائیں لکھائیں اور کام کا آدمی بنائیں۔لیکن اس زمانے کے استاد بہت کم تشدد یا مارپیٹ سے کام لیتے تھے، محبت سے بچوں کو پڑھاتے تھے۔اور بچے بھی والدین سے کہیں زیادہ اپنے اساتذہ کا احترام کیا کرتے تھے۔حال ہی میں ایک مدرسے کے استاد کی جانب سے ایک بچے پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وائرل ہوئی تو شام تک نہ صرف استاد لاک اپ میں تھا، بلکہ ہر جگہ اس بات کا چر چا تھا۔
جون ایلیاء کے شعر کے مصداق
اس کی گلی سے اٹھ کے میں، آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی
پاکستان میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے استاد کی مار ایک روایتی انداز ہے۔لیکن تمام ترمدارس اس پر پورے نہیں اترتے90 فیصد مدارس میں یہ طریقہ نہیں اپنایا جاتا۔پھر ہم دس فیصد کے لیے پورے ملک کو اور قوم اور مدارس کو کیوں بدنام کر رہے ہیں، حیدرآباد کے ایک کونے میں ہونے والا واقعہ پوری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا، ایسے حالات میں جب پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے جاری شدت پسندی کے شدید رجحانات کے الزامات کی زد میں ہے، اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی نہ ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ ہمیں ان معاملات کو اچھالنے سے زیادہ اس کی بیخ کنی کرنی چاہیئے۔
ملک میں رواداری کے رویے کیلیے کوشاں حلقے اس کو کوئی مثبت پیغام نہیں سمجھتے ۔ ہمارے کلچر میں لڑائی مار دھاڑ اور گالی گلوچ رچی بسی ہے، غالب تو اپنے محبوب سے بھی شکوہ کناں تھے، کہ دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں۔ ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن ۔ ٹرین میں بیٹھتے ہوئے ایک دوسرے کو کیسے کیسے دھکیلا جاتا ہے، لیکن ڈبے میں بیٹھنے کے بعد اپنی منزل آتے آتے ایسے دوست اور قریبی ہوجاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پتے اور فون کا تبادلہ کرتے ہیں۔اکثر یہ بات بھی سننے میں آتی ہے کہ اگر کسی کو بچپن میں استاد کی مار پڑ گئی ہوتی تو وہ ایسا نہ ہوتا جیسا اب ہے بلکہ بالکل سْدھر گیا ہوتا۔