اپ ڈیٹ 18 دسمبر 2018 10:27am

بچوں پر تشدد : ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی

ایک زمانہ تھا والدین بچوں کو استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہتے تھے،ہڈیاں ہماری گوشت آپ کا،اسے پڑھائیں لکھائیں اور کام کا آدمی بنائیں۔حال ہی میں ایک مدرسے کے استاد کی جانب سے ایک بچے پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وبائی ہوئی تو شام تک نہ صرف استاد لاک اپ میں تھا، بلکہ ہر جگہ اس بات کا چر چا تھا۔

ایک زمانہ تھا والدین بچوں کو استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہتے تھے،ہڈیاں ہماری گوشت آپ کا،اسے پڑھائیں لکھائیں اور کام کا آدمی بنائیں۔لیکن اس زمانے کے استاد بہت کم تشدد یا مارپیٹ سے کام لیتے تھے، محبت سے بچوں کو پڑھاتے تھے۔اور بچے بھی والدین سے کہیں زیادہ اپنے اساتذہ کا احترام کیا کرتے تھے۔حال ہی میں ایک مدرسے کے استاد کی جانب سے ایک بچے پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وائرل ہوئی تو شام تک نہ صرف استاد لاک اپ میں تھا، بلکہ ہر جگہ اس بات کا چر چا تھا۔

جون ایلیاء کے شعر کے مصداق 
اس کی گلی سے اٹھ کے میں، آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی، اور گلی گلی گئی

 پاکستان میں تعلیم و تدریس کے حوالے سے استاد کی مار ایک روایتی انداز ہے۔لیکن تمام ترمدارس اس پر پورے نہیں اترتے90 فیصد مدارس میں یہ طریقہ نہیں اپنایا جاتا۔پھر ہم دس فیصد کے لیے پورے ملک کو اور قوم اور مدارس کو کیوں بدنام کر رہے ہیں، حیدرآباد کے ایک کونے میں ہونے والا واقعہ پوری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا، ایسے حالات میں جب پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے جاری شدت پسندی کے شدید رجحانات کے الزامات کی زد میں ہے، اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی نہ ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ ہمیں ان معاملات کو اچھالنے سے زیادہ اس کی بیخ کنی کرنی چاہیئے۔

ملک میں رواداری کے رویے کیلیے کوشاں حلقے اس کو کوئی مثبت پیغام نہیں سمجھتے ۔ ہمارے کلچر میں لڑائی مار دھاڑ اور گالی گلوچ رچی بسی ہے، غالب تو اپنے محبوب سے بھی شکوہ کناں تھے، کہ دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں۔ ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن ۔ ٹرین میں بیٹھتے ہوئے ایک دوسرے کو کیسے کیسے دھکیلا جاتا ہے، لیکن ڈبے میں بیٹھنے کے بعد اپنی منزل آتے آتے ایسے دوست اور قریبی ہوجاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے پتے اور فون کا تبادلہ کرتے ہیں۔اکثر یہ بات بھی سننے میں آتی ہے کہ اگر کسی کو بچپن میں استاد کی مار پڑ گئی ہوتی تو وہ ایسا نہ ہوتا جیسا اب ہے بلکہ بالکل سْدھر گیا ہوتا۔

ہمارا مذہب اسلام تشدد کی اجازت نہیں دیتا، خصوصا بچوں پر۔ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ درست ہے لیکن جسمانی سزا بالکل غلط ہے ،بچوں پر تشدد ظلم ہے۔ اس سے ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی بلکہ ان کی نفسیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔بچوں سے مار پیٹ دراصل اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا آسان ترین طریقہ ہے۔ بچوں کی تربیت اور نشو نما کو ئی آسان کام نہیں ہے لیکن ایک کنبے میں زیادہ بچے ہو جانے کی وجہ سے لوگ توجہ نہیں دے پاتے اور بچوں اور والدین کی ترجیحات میں فرق پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد عموماً والدین اور استاد بھی اپنا غبار مار کر ہی نکالتے ہیں۔

روایتی طور پر استاد اور مدرس کی مار کو طالب علموں کی بہتری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم مغرب میں یہ تصور بالکل بدل گیا ہے اور بچے کی دماغی اور جسمانی نشونما کے لئے اس بات کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے کہ بچوں کو ڈرایا یا دھمکایا نہ جائے بلکہ انہیں خود کچھ کرنے کا موقع دیا جائے۔ماہر نفسیات یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں پر تشدد کا برا اثر اگر فوری نظر نہیں آتا تو پھر زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ مار پٹائی کے منفی اثرات نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اکثر مغربی ممالک نے تو بچوں کی اسکول یا گھر میں پٹائی کو ایک جرم قرار دے رکھا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو اچھی خاصی سزا ہو سکتی ہے۔

پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کے علاوہ مذہبی تعلیم کے مدرسوں سے اکثر طالبعلموں کی اساتذہ کے ہاتھوں پٹائی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔لیکن ہم نے اپنے نظام تعلیم میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ مدراس کا تو ذکر ہی کیا، حکومت نہ انہیں کوئی امداد دیتی ہے، اور نہ ہی انھیں قومی دھارے میں شامل کرتی ہے، یہ بچے صدقے، خیرات، اور زکوۃٰ پر ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔پاکستان میں اسکول یا مدارس ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی کمزور طبقے یعنی عورتوں اور بچوں پر تشدد کے واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔

ایک این جی او نے جو ان معاملات کو اچھالنے میں غیر ملکی ایجنڈے کے مطابق کام کرتی ہیں نے رپورٹ دی ہے کہ سال 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے جن میں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے۔اس طرح کی رپورٹ اخباری خبروں سے مرتب کی جاتی ہیں۔انتہائی حساس نوعیت کے اس واقعات پر کوئی سرکاری ادارہ ایسے اعداد و شمار جمع نہیں کرتا۔ عوامی نمائندے اور سرکاری حکام تو اس بھیانک حقیقت کو تسلیم کرنے کے تیار ہی نہیں ہیں اور سرے سے انکار کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے اور محکمے ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا بھی پیمرا کے ہدایات کے مطابق ایسے واقعات کی زیادہ تشہیر نہ کریں ۔ اور اس کا علاج کریں، اور گھر کی بات گھر ہی میں رہنے دیں۔

Read Comments