اپ ڈیٹ 14 جولائ 2019 01:13pm

!بدعنوانی (کرپشن)کیا ہے

یوں تو لفظ بدعنوان اردومیں ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سےہی غیراہم رہا(جس کا مقامی سیاستدانوں نے خوب فائدہ اٹھایا)جبکہ لفظ کرپٹ یاکرپشن جو انگریزی میں بدعنوان کےلئے استعمال ہوتا ہے کافی عام فہم ہے اور بخوبی جاناپہچانا جاتا ہے۔ہم اردوکی ترویج کوملحوظ خاطررکھتے ہوئے لفظ بدعنوان استعمال کریں گے۔ اس لفظ کوبھی انگریزی میں عام کرنےکی ایک وجہ یہ بھی ہےکہ انگریزی میں کسی کو کچھ بھی کہاجائےاسے کوئی فرق نہیں پڑتا، یعنی سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔

معاشرےاپنی زبان میں پرورش نہیں پائیں تو بےزبان اور بے عنوان رہتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کاہر لفظ ہی متاثر کن ہے چاہے وہ ہتک عزت ہی کیوں نہ کررہا ہو۔ پاکستانی عوام کوجوسمجھنا تھا وہ آج تک سمجھنے کی کوشش نہیں کررہی اورجو کچھ غیر ضروری ہے وہ سب سمجھ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ قومی زبان کے نفاذ کو ہمیشہ کیوں پسِ پشت رکھا گیا ہے اس کی وجوہات جہاں اوربہت ساری ہیں، ان میں سے ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ اسطرح سے قوم کوبیوقوف بناکےرکھاجائے۔ ہم ہرمضمون میں اپنی قومی زبان کی ترویج کےلئے اپنی سی کوشش کرتےرہتے ہیں اور ر ہیں گے۔یہاں تک کہ ہمارامعاشرہ اپنی زبان سمجھنا نہ شروع کردے۔

ہمیشہ صحیح راستے پر رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہم متبادل راستہ نکالتے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ راستہ بدل کر منزل پر پہنچا جائے۔ سوال یہ ہے کہ صحیح راستہ صحیح کیوں نہیں رکھاجاتا؟کیوں عوام کومشکل میں دھکیل دیاجاتاہے؟کیوں انہیں متبادل راستہ دکھایاجاتا ہے؟ ایک طرف تو ہم قطار میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ لمبی قطار سے ہوتا ہوا ایک شخص متعلقہ کھڑکی یا فرد تک پہنچتا ہے تو وہاں اسے کسی نا کسی ایسے اعتراض کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے کےلئے متبادل طریقہ استعمال کرنا ہی پڑتا ہے۔دنیا نے ترقی کےلئے قطاروں سے جان چھڑائی یعنی سب کچھ ڈیجیٹلائز (معذرت اردو میں بہت مشکل ترجمہ ہے اس لفظ کا)کردیا۔ انسانی ہاتھ کا استعمال سوائے پلاسٹک کے کارڈز کو سوائپ کرنے کہ اور کچھ نہیں رہا ہے اس طرح سے وہاں بدعنوانی یا متبادل راستے کے چناؤ کا معاملہ ہی ختم کردیا ہے۔ آخر ہمارے پاس ایسا کیا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی قطار میں کھڑا ہونا نہیں چاہتا، جبکہ بغیرصف بندی کے رب کی رضابھی نہیں ملتی۔یہاں بات امیر یا غریب کی نہیں یہ معاملہ ہر پاکستانی میں بتدریج یکساں مناسبت سے پایا جاتا ہے۔ہم نے مانا کہ پیسے والے کو اپنے پیسے کا گھمنڈ ہوتاہےلیکن ایک متوسط طبقے یا اس سے بھی کم یعنی تیسرے درجے کا پاکستانی بھی قطار میں لگنا اپنی توہین سمجھتاہے۔ بارہا قطار میں لگنے کے معاملے پر لکھ چکا ہوں لیکن یہ دکھ ہر روز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جبکہ ہوائی اڈوں پر اب کچھ انتہائی اہم لوگ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

بہت چھوٹی چھوٹی بدعنوانیاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں اورہماری نسلیں ان بدعنوانیوں کےسائے میں پرورش پا رہی ہے۔ راستے میں چلتے پھرتے کہیں بھی کچرا پھینک دینا، گھرپر ہوتےہوئے بچوں سے کہلوادینا کہ گھر پر نہیں ہیں، اسکول کی چھٹی کےلئے بہت پیار سے بچے کو کہہ دینا کہ ہماری نانی اسپتال میں تھیں تو دیکھنے گئے ہوئے تھے وغیرہ وہ روزمرہ کی باتیں ہیں جو بچےبڑوں سےمعمول کے مطابق سنتےہیں اور اس طرح بدعنوانی کا بیج معصوم بچوں کے ذہنوں میں بو دیا جاتاہے۔

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ قطار کا بد عنوانی سے گہرا تعلق ہے۔ٹرین کا ٹکٹ لینے جائیں ایک لمبی قطار دیکھ کر فوراً کسی دوسرے ذریعے کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر گھومنا شروع ہوجاتی ہیں اور کچھ نہ کچھ میسر آ ہی جاتا جنہیں اضافی رقم دے کر بغیر کسی مشکل کے کام ہوجاتا ہےاور بڑے فخر سے وہاں سے نکل جاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے بدعنوانی میں اپناحصہ ڈالاہے۔ دراصل بدعنوانی قطارمیں نہ کھڑے ہونے والوں کی وجہ سے ہی پھلتی پھولتی ہے۔ قطار کو لمبا رکھنے میں اس عملے کا بھی کچھ ہاتھ ہوتا ہے جو اندر بیٹھا کام کررہاہوتا ہے، جو بدعنوانی کے اسباب پیدا کررہا ہوتا ہے۔

پاکستانی بدعنوانی نےکرکٹ ٹیم کاپیچھا عالمی مقابلوں میں بھی نہیں چھوڑا ہےجس کا حال خود سمجھنا پڑےگا۔  تین جولائی بروز بدھ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کا میچ تھا جس میں انگلینڈ کا جیتنا سیمی فائنل تک رسائی کےلئے ضروری تھا جبکہ نیوزی لینڈ کا جیتنا سوائے پاکستان کی امیدوں کو زندہ رکھنے کے اور کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔انگلینڈ نے یہ میچ باآسانی جیت لیابالکل ویسےہی جیسے انگلینڈ بھارت کےخلاف جیتا تھا۔ اس میچ کی سب سے خاص بات یہ نہیں تھی کہ کون جیتایاکون ہارابلکہ یہ بات اہم تھی کہ پاکستان کا عالمی مقابلوں میں سفر تمام ہوگیا۔ اب پاکستان کےلئے بنگلادیش سےمیچ سوائےضابطے کی کاروائی کے اور کچھ نہیں رہا۔ایک پیغام موصول ہوا جس میں لکھا ہے کہ 1992کی تو تمام نشانیاں پوری ہوچکیں اب اگر پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جاتا ہے تو یہ سوائے قیامت کی نشانی کے اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔پاکستان اپنا ابتدائی میچ ویسٹ انڈیز سے اتنا غیرمتوقع طور پر ہارا کہ اس کی اوسط بری طرح متاثر ہوئی۔قدرت نے پاکستان کو اوسط بہتر کرنے کےمواقع فراہم کئےجوپاکستان نےاپنی نااہلی کی بدولت گنوادیے۔اب قسمت کی دیوی باربارتومہربان ہونے سے رہی ۔اس سورتحال پر منیر نیازی صاحب کاشعر بےساختہ یاد آجا تا ہے کہ

کج شہر دے لوک وی ظالم سن

کج سانوں مرن دا شوق وی سی

ہمیں اپنے اسکولوں مدرسوں اور تمام تعلیمی اداروں میں چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں کے متعلق اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنا ہوگااور عملی طور پر ان سے بچتے رہنے کا ثبوت بھی پیش کرنا ہوگا۔ اللہ کے نزدیک بدعنوانی بدعنوانی ہے چھوٹی یابڑی نہیں۔ ہمیں ان بدعنوانوں سے کچھ نہیں لینا جو اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں اور اگلے جہان میں بھی بھگتیں گے۔ہمیں تو بس اپنی آنے والی نسل کی فکر ہے کہ انہیں اردو میں بولا جانے والا لفظ بدعنوان سمجھ آنے لگے باقی وہ خود ہی سنبھال لیں گے۔

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Read Comments