اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2019 06:46pm

سپریم کورٹ :دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری

سپریم کورٹ نےدہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا،59 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اورسیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد کارروائی دہشت گردی ہے،حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف وہراس پھیلانااورجانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے۔

فیصلے کے مطابق منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا دہشت گردی ہے،منصوبے کے تحت صحافیوں ،کارباری برادری، عوام اور سوشل سیکٹر پر حملے دہشت گردی ہے،منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا بھی دہشت گردی ہے۔قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہیں۔

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا،جلاؤ گھراؤ،بھتہ خوری،مذہبی منافرت دہشت گردی نہیں جبکہ ذاتی عناد یا دشمنی کے باعث پولیس، افواج پاکستان اورسرکاری ملازم کے خلاف پرتشدد واقعہ میں ملوث ہونا بھی دہشت گردی نہیں ہے۔

فیصلے کے مطابق پاکستان میں 1974 سے دہشت گردی پر قابو  پانے کے لیے مختلف قوانین متعارف کروائے گئے،انسداد دہشت گردی قانون انتہائی وسیع ہے،قانون میں دہشتگردی کے حوالے سے کئی اقدمات اور ڈیزائن ایسے شامل کیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں،دہشتگردی کے قانون میں ایسے سنگین جرائم کو شامل کیا گیا جن کے سبب عدالتوں میں غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اغوا برائے تاوان جیسے دیگر سنگین جرائم کو دہشت گردی میں شامل کرنے کے سبب دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے،ہم پارلیمنٹ کو سفارش کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے نئی تعریف کا تعین کرے۔

پارلیمنٹ دہشتگردی کی  تعریف کے لیے بین الااقوامی معیارکے تناظرمیں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی مقاصد کا حصول مدنظر رکھے،بین الاقوامی سطح پر یہ طےہو چکا سیاسی، نظریاتی یا مذہبی مقاصد کے حصول کے بغیر پر تشدد کارروائی دہشت گردی نہیں۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل تمام جرائم کو ختم کرے،انسداد دہشتگردی قانون کے تیسرے شیڈول میں شامل ان تمام جرائم کو ختم کیا جائے جن کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔

Read Comments