شائع 17 نومبر 2021 07:20pm

اپوزیشن تقسیم، مشترکہ پارلیمانی اجلاس کی اندرونی کہانی

اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کااجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ۔

مشترکاپارلیمانی پارٹی اجلاس میں اپوزیشن تقسیم ہوگئی،مسلم لیگ ن نے ایوان میں احتجاج کےبعد واک آوٹ کا مشورہ دیا،جبکہ پیپلزپارٹی نےمشترکا اجلاس میں شریک ہونے کا مشورہ دیا۔

اجلاس میں ن لیگ کا موقف تھا کہ قانون سازی کاحصہ بنںےتوعدالت میں چیلنج کرنامشکل ہوگا۔

پیپلزپارٹی نے کہا کہ قانون سازی کاحصہ بن کراحتجاج ریکارڈ کراناچاہے،جس کے بعد اپوزیشن کےمشترکااجلاس میں اسپیکرکوٹارگٹ کرنےپراتفاق کیا گیا۔

اجلاس میں ایوان میں قانون سازی کے دوران بھرپوراحتجاج کا فیصلہ کیا اور ایوان کی صورتحال کاجائزہ لیکرواک آوٹ کرنےپراتفاق بھی کیا گیا۔

'ہم آج سے ہی انتخابات کو نہیں مانتے'

دوسری جانب پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم آج سے ہی آئندہ انتخابات کونہیں مانتے، چیئرمین بلاول بھٹو نے عدالت سےرجوع کرنے کا اعلان کردیا ۔

بلاول کاکہناتھا کہ پارلیمان سے بالاترکوئی ادارہ نہیں، انکارکرنے والے آئی ایم ایف کے پاس گئے،اب کلبھوشن کو این آراو دے رہے، لیکن وہ عوام پرظلم نہیں کرنے دیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے اسپیکراسد قیصر سے شکوہ کیا اور کہا کہ اسپیکرنے یقین دہانی کروائی تھی کہ عوام کودھوکہ دینے میں اسپیکردفتراستعمال نہیں ہونا چاہیئے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ یکطرفہ قانون سازی قبول نہیں، ای وی ایم پرالیکشن کمیشن نےبھی چونتیس اعتراض کیے، اور وہ الیکشن کمیشن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،قانون سازی کو عدالت میں چیلنج کرینگے۔

بلاول بھٹو نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کیلئے آزاد کشمیر کے طریقہ کار اپنانے کا مشورہ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوکودیےجانے والے این اراوکومسترد کرتے ہیں ، آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے والے اب انکی شرائط تسلیم کررہے جس کا بوجھ عوام اٹھارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ مردم شماری پر بلوچستان ، سندھ اور قبائلی علاقوں کے اعتراض موجود ہیں۔

Read Comments