Aaj Logo

شائع 27 ستمبر 2022 11:25am

خیبرپختونخوا: سیلاب زدگان کے ساتھ رضاکار بھی وبائی امراض کاشکار

خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب جہاں کئی مکانات کو تباہ اور سینکڑوں افراد کی جانیں لے چکا ہے تو وہیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے۔ محکمہ صحت خیبر پختونخواسے حاصل کردہ رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث متاثرہ اضلاع میں اب تک 3 لاکھ34 ہزار سے زائد افراد مختلف امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔

“سیلاب نے تو مالی طور پر انتہائی نقصان پہنچایا ہے لیکن جب جسم کی بات آتی ہے تو انسان مالی نقصان کو بھول جاتا ہے “ یہ الفاظ ضلع سوات کے علاقہ کالام سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ محمد خان کے ہیں جو سلالب سے متاثرہ ڈھائی لاکھ مریضوں میں سے ایک ہیں۔

مزدوری کرنے والے حضرت محمد نے بتایا کہ پینے کیلئے پہاڑ سے پائپ کے ذریعے چشمے کا پانی ان کے گھر آیا کرتا تھا تاہم سیلاب کی وجہ سے وہ پانی آلودہ ہوگیا ہے، پینے کے پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے، مجبوری کی وجہ سے آلودہ پانی استعمال کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان سمیت 8 افراد پر مشتمل خاندان کے تمام افراد ہیضے سے کئی دن متاثر رہے، تاہم مڈتیکل کیپمس سے علاج کے بعد صحت یاب ہوگئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہیضے سے صحت یاب ضرور ہوگئے ہیں لیکن چونکہ تاحال آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اس لئے اب گھر کے تمام افراد ٹائفائڈ میں مبتلا ہیں اور کالام ہسپتال میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

حضرت محمد نے مزید بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ان کی آلو اور ٹماٹر کی فصلیں بھی تباہ ہوگئی ہیں،گھر سیلاب میں بہہ گئے جبکہ بیماری کی وجہ سے اب مزدوری بھی نہیں کر سکتے، اس لئے علاج معالجے میں بہت پریشانی کا سامنا ہے۔

”آلودہ پانی پینے یا اس میں کام کرنے کی صورت میں ممکن نہیں کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں ہوگی“، ایسا کہنا ہے سیلاب متاثرین کیلئے کام کرنے والی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن خیبرپختونخوا کے صدر خالد وقاص کا ۔

خیبرپختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ تمام اضلاع میں سیلاب زدگان کی بحالی میں خالد وقاص آگے آگے نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ خالد وقاص سیلاب کے آلودہ پانی میں کام کرنے کی وجہ سے اسکن انفکشن سے متاثر ہوئے۔

خالد وقاص نے بتایا کہ سیلاب کے پانی میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے جسم پر دانے نکل آئے جبکہ صاف پینے کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہیضے سے بھی متاثر ہوئے، تاہم معمولی نوعیت کے انفکشن اور بروقت علاج کے باعث وہ ایک ہفتے کے اندر صحتیاب ہوئے۔

یہ کہانی صرف حضرت محمد یا خالد وقاص کی نہیں بلکہ سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے کام کر نے والی فلاحی تنظیم اکبر فاؤنڈیشن کے 35 سالہ رضاکار عامر خان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔

عامر خان جب نوشہرہ میں متاثرین کی مدد کیلئے کام کرنے لگے تو آلودہ پانی کی وجہ سے خود بھی ہیضے سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ نوشہرہ میں مشکل سے شاید کوئی گھر ایسا ہو جس میں وبائی امراض سے متاثرہ مریض نہ ہو۔

عامر نے بتایا کہ نوشہرہ کے ہر علاقہ کا پانی آلودہ ہوچکا ہے لیکن لوگ اسی پانی کو پینے پر مجبور ہیں کیونکہ ٹنکیوں میں صاف پانی جو آتا ہےوہ ناکافی ہے۔

عامر کے مطابق سیلابی پانی میں دن رات کام کرنے کے باوجود انہیں کوئی اسکن انفکشن نہیں ہوا تاہم ان کی وجہ سے ان کی بیوی، بیٹی اور والدہ کو اسکن انفکشن ہونے کی وجہ سے جسم پر دانے نکلے ہیں۔

ضلع سوات کے کالام ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر زیب خان نے بھی ادویات کی کمی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے اور چونکہ کالام کی سڑکیں خراب ہوگئی ہیں، اس لئے ادویات بروقت نہیں پہنچ رہیں جس کی وجہ سے مشکل ہے ۔

نوشہر ہ میں صاف پینے کے پانی کے حوالے سے ٹی ایم او نوشہرہ عادل حسین نے بتایا کہ انتظامیہ سمیت فلاحی تنظیموں کی 30 سے زیادہ گاڑیاں صاف پانی کی فراہمی میں مصروف ہیں تاہم ڈینگی کے خدشے کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت کے مطابق پانی فراہم کیا جارہا ہے، کیونکہ پھر ان کیلئے پانی کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ڈینگی مزید پھیل سکتا ہے۔

محکمہ صحت کے ترجمان کے ذریعے حاصل کردہ دستاویز کےمطابق سیلاب کی وجہ سے 73 ہزار 443 افراد اسہال کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ 60 ہزار 299 افراد میں سانس کی بیماری پھیل چکی ہے۔اسی طرح 50 ہزار 314 افراد جلدی امراض کا شکار ہوچکے ہیں اور 10 ہزار 66 افراد کو امراض چشم نے گھیر لیا ہے۔

دستاویز کےمطابق 9 ہزار 29 افراد ملیریا،5 ہزار 560 افراد ڈینگی، 2 ہزار 57 ٹائیفائیڈ اور116 افراد خسرہ کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 79 افراد کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔

وبائی امراض سے ڈی آئی خان، نوشہرہ، چارسدہ، ملاکنڈ، سوات، ٹانک، کوہستان، لکی مروت اور پشاور سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔محکمہ صحت کی دستاویز کےمطابق سانس کی بیماری کے سب سے زیادہ 12ہزار20 کیسز ڈیر ہ اسماعیل خان سے رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ سب سے زیادہ جلدی امراض کے 14ہزار510 کیسز اور امراض چشم کے 2ہزار188 کیسز چارسدہ سے سامنے آئے ہیں، ٹائیفائیڈ کے سب سے زیادہ 546 کیسز سوات سے سامنے آئے ہیں،2ہزار10 ڈینگی کیسز کےساتھ مردان سرفہرست ہے،ملیریا نے سب سے زیادہ 3ہزار 718افراد کو لکی مروت میں متاثر کیا ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن ، پاکستان ہلال احمر اور خدائی خدمتگار تنظم کے مجموعی طور پر 9 ہزار کے قریب رضاکار سیلاب متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں ۔ان تینوں تنظیموں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سیلاب زدگان کی مدد کے دوران 650 رضاکار بھی ہیضے،دست، امراض چشم وجلد سمیت مختلف وبائی امراض کا شکار ہوچکے ہیں۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بطور ماہر امراض چشم کام کرنے والے ڈاکٹر نعیم خٹک کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ آشوب چشم ہوسکتا ہے جس کو آنکھ کی جھلی کی سوزش بھی کہتے ہیں اور اس کی وجہ سے آنکھ کی سُرخی اور آنکھیں دُکھ بھی سکتی ہیں۔

ڈاکٹر نعیم کا کہنا ہے کہ وائرل آشوب چشم ایک سے دو ہفتے تک رہ سکتا ہے جبکہ سیلاب کی وجہ سے ٹرکوما بھی ہوسکتا ہے۔

ٹرکوما آنکھ کی ایک بیماری ہے جو ایک خاص بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے اور زیادہ ہونے کی صورت میں اس سے بینائی بھی جاسکتی ہے اس لئے اس کا بروقت علاج بہت ضروری ہے۔

خیبرٹیچنگ ہسپتال کے ماہر امراض جلد ڈاکٹر مہران خان کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آلودہ پانی اور درختوں کے کنٹک سے ایزکیما کا خدشہ ہوتا ہے جس سے جلد میں جلن اور خارش ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ جلد کی بیماریاں جیسے ڈرمیٹیٹائٹس ان لوگوں کو متاثر کر سکتی ہیں جو آلودہ پانی کے قریب رہتے ہیں جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھپاکی بھی جلدی پھیلتا ہے۔

ڈاکٹر مہران نے بتایا کہ اگر ساتھ سانس کا کوئی مسئلہ نہ ہو تو ان جلدی امراض کا شکار مریضوں کو پریشانی ہونے کی ضرورت نہیں تاہم ایز یما اور چھپاکی کے مریضوں کو فوری طور پر طبی ماہر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ بے احتیاطی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر خالد وقاص نے بتایا کہ صوبے میں ان کے 7 ہزار سے زائد رضاکار سیلاب متاثرین کی مددمیں بغیر کسی تنخواہ یا معاوضے کے مصروف ہیں اور وہ ان وبائی امراض کے خدشے بھی واقف ہے لیکن مدد کی وجہ سے متاثرین کے چہروں پر خوشی دیکھ کر وہ اپنی تکلیف بھول جاتے ہیں کیونکہ متاثرین کی خوشی ہی ہماری دوا ہے۔

خدائی خدمتگار تنظیم کے مرکزی سالار ڈاکٹر شمس الحق کا کہناہے کہ بغیر کسی لالچ کے دوسروں کی رضا حاصل کرنے والے رضاکارہی ہوتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ رضاکار مدد کے وقت تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لائیں کیونکہ اگر رضاکار مدد کے وقت خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتا تو وہ دوسروں کی مدد نہیں کرپاتا ۔

علاج معالجے کے حوالے سے عامر خان کا موقف ہے کہ مڈییکل کمپس مںک سہولاات نہں ہیں کومنکہ نہ تو کوئی مستند ڈاکٹرز موجود ہں اور نہ ادویات دستیاب ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ متاثرہ علاقوں میں کیمپس کی تعداد بڑھا کر اسکن، ای این ٹی اور میڈیکل اسپشلسٹ سمیت مختلف امراض کے ماہر ڈاکٹرز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے جبکہ مذکورہ امراض کے علاج کیلئے درکار ادویات بھی کیمپس میں فراہم کی جائیں تاکہ مریضوں کا بروقت علاج ممکن ہوسکے۔

پی ڈی ایم اے کے ترجمان تیمور علی کا موقف ہے کہ متاثرہ اضلاع میں اس وقت پی ڈی ایم اے کے تین میڈیکل کیمپس بھی فعال ہیں جہاں مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، تاہم کیمپس کے باہر مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنا محکمہ صحت کی ذمہ داری بنتی ہے جبکہ پی ڈی ایم اے نے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ملیریا اور ڈینگی کنٹرول کرنے کیلئے 60 ہزار مچھر دانیاں محکمہ صحت کےحوالے کردی ہیں۔

انٹگریٹڈ ڈیزیز سرویلینس اینڈ رسپانس سسٹم خیبرپختونخوا کے ڈاکٹرمحمد قاسم آفریدی کا ڈینگی کیسز میں اضافے کے حوالے سے کہنا ہے کہ موسم گرما میں ویسے بھی ڈینگی کے وار تیز ہوجاتے ہیں تاہم سیلاب کی وجہ سے کیسز تیزی سے بڑھ رہےہیں ،کیونکہ جگہ جگہ سیلاب کا پانی کھڑا ہوگیا ہے، پانی ملنے سے ہی ڈینگی مچھر پرورش پاتا ہے اس لئے سیلاب کے پانی کو جلد ختم کرنےاور احتیاطی تدابیر کےساتھ ساتھ کسی بھی جگہ پر تین دن سے زیادہ پانی کو کھڑا نہیں چھوڑنا چاہیے ۔

ڈاکٹر قاسم آفریدی نے بتایا کہ سیلاب کا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے پینے کا پانی بھی متاثر ہوا ہے اور آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ٹائفائڈ ، ہیپاٹائٹس، دست سمت کئی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔

علاج کے حوالے سے ڈاکٹر قاسم آفریدی کا کہنا تھا کہ چونکہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں صحت مراکز بھی متاثر ہوچکے ہیں اس لئے تمام متاثرہ علاقوں میں محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ مختلف فلاحی تنظیموں نے میڈیکل کیپمس قائم کئے ہیں جہاں امراض کی تشیخص کے ساتھ مفت ادویات کی فراہمی بھی جاری ہے۔

امراض پر قابو پانے سے متعلق ڈاکٹر قاسم آفریدی نے کہا کہ ان تمام امراض میں کمی کا انحصار سیلاب کے پانی پر ہے،جیسے جیسے سیلاب کا پانی کم ہوگا ان بیماریوں میں کمی آئے گی۔

اس حوالے سے متاثرہ اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ متاثرہ علاقوں سے مشینری کے ذریعے نکاسی آب کا کام جاری ہے اور کئی علاقوں سے پانی نکال بھی دیا گیا ہے تاہم چند علاقوں میں مناسب نظام نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے مشکل درپیش ہے اور تمام علاقوں سے مکمل پانی نکلنے میں وقت لگے گا۔

امیونائزیشن پروگرام خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹر محمد عارف نے بتایا کہ ٹائفائڈ کو ای پی آئی میں شامل کرلیا گیا ہے جس کے تحت اب 9 سے 15 سال تک کے بچوں کو ٹائفایئڈ سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں گے اور اسی سلسلے میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع سمیت 22 اضلاع میں اکتوبر سے باقاعدہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ ٹائفائڈ سے مستقل بچاؤ کیلئے ٹیکے لگانا انتہائی ضروری ہے، مہم کے دوران 29 لاکھ بچوں کو ٹیکے لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ٹائفانئڈ، ملیریا اور ڈینگی کیسز میں اضافے کے ساتھ ہی خیبر پختونخوا کی ادویات کی مارکیٹوں سے بخار کی ادویات (پیراسیٹامول) غائب ہیں جس کے باعث بھی مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

میڈیکل اسٹور مالکان کا مؤقف ہے کہ سیلاب کے باعث ذخیرہ اندوز مافیا نے مارکیٹ سے دوائیں غائب کردیں تاکہ بلیک میں مہنگے داموں فروخت کرسکیں۔ بخار کی ادویات کی مارکیٹ میں عدم دستیابی پر پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لیتے ہوئے محکمہ صحت، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سمیت تمام متعلقہ محکموں کو تین ہفتوں میں ادویات کی مارکیٹ میں دستیابی کو یقینی بنانے کے احکامات دئے ہیں بصورت دیگر محکموں کے اعلیٰ حکام کو ہائیکورٹ طلب کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔

ڈپٹی سیکریٹری محکمہ صحت خیبرپختونخوا ابراہیم خان کا موقف ہے کہ بخار کی ادویات کیلئے خام مال باہر سے منگوانا پڑتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ کے باعث میڈیسن کمپنیوں کو مشکلات درپش ہیں جبکہ وفاقی حکومت اور کمپنیوں کے درمیان بخار کی ادویات کی قیمت کے حوالے سے بات چیت بھی ہوئی ہے، اس لئے چند روز میں ہی ادویات کی مارکیٹوں میں فراہمی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے 15 جون سے حالیہ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے مختلف حادثات کے نتیجے میں 289 افراد جاں بحق اور 348 افراد زخمی بھی ہوچکے ہیں جبکہ مجموعی طور پر 91 ہزار 458 مکانات کو نقصان پہنچا ہے، جس میں 37 ہزار 523 مکانات کو مکمل اور 53 ہزار 936 مکانات کو جزوی نقصان پہنچنا ہے۔

خیبرپختونخوا کے وزیر محکمہ ریلیف، بحالی و آباد کاری محمد اقبال وزیر کے مطابق سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے حادثات میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو 8 لاکھ اور زخمی افراد کو 2 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا، جبکہ سیلاب کے دوران مکمل تباہ شدہ گھر کے مالک کو چار لاکھ اور جزوی نقصان کی صورت میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے بطور معاوضہ بینک آف خیبر کے ذریعے ادا کئے جائیں گے جس کیلئے سروے کا عمل جاری ہے، اور اس کی تکمیل کے ساتھ ہی معاوضے کی ادائیگی کا عمل شروع ہوگا۔

Read Comments