Aaj Logo

شائع 06 اکتوبر 2022 11:27am

جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ میں بیٹھیں، جسٹس اطہر من اللہ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عوام نے بھروسہ کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے جن پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کےاستعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کی، اس سلسلے میں پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے بیرسٹرعلی ظفرعدالت میں پیش ہوئے۔

’ عدالت ہمیشہ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام ضروری ہے ’

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اسپیکرقومی اسمبلی نےاستعفے منظورکرلئے مگر رولز کو فالو نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت ہمیشہ کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کا احترام ضروری ہے۔

عدالت نے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ درخواست گزارپارٹی فیصلے کے خلاف جارہے ہیں، اگر درخواست گزارپارٹی فیصلے کے خلاف جارہے ہیں توپارٹی ایکشن لیں گی، شکور شاد کی حد تک عدالت نے فیصلہ دیا تواس کے خلاف پارٹی نے شوکازجاری کیا، آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ یہ پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں یا حامی ہیں ؟۔

جس پربیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی پارٹی کے خلاف نہیں، درخواست گزار پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کے درخواست گزاروں کو تو پھر پارلیمنٹ واپس جانا چاہیئے۔

’ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی ’

عدالت نے کہا کہ شکورشاد کی حد تک عدالت نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کوئی ہدایات نہیں دی تھی، عدالت کوبتانا ہوگا کہ درخواست گزار صاف ہاتھوں سے یہاں آئے ہیں، بتانا ہوگا کہ مؤکل واپس پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں اور اپنے علاقے کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیےکہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے، اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائرکی گئی تھی، کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے؟ ابھی تک باقیوں کےاستعفے ہی منظور نہیں ہوئے، عوام نے اعتماد کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔

جس پر درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ واپس جانا سیکنڈری ایشو ہے۔

’ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں ’

چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ پھروہ ممبرپارلیمنٹ ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا ورچوئل بائیکاٹ کررہے ہیں، آپ اس متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں، کیا عدالت آنے والے 10 ارکان اسمبلی پی ٹی آئی پالیسی کے حق میں ہیں یا مخالف ؟۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالتیں سیاسی تنازعات حل کرنے کے لئے نہیں ہیں، سیاسی تنازعات کے لئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں۔

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ ایک ساتھ استعفے ایک کنڈیشن کے ساتھ دیئے گئے تھے، اسپیکر نے ایک ساتھ استعفے منظور نہ کرکے وہ کنڈیشن ہی ختم کر دی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب استعفی دے دیا گیا تو پھر منظوری اسپیکر کا ہی اختیار ہے، استعفے دینے والا اُس کے بعد اپنی شرائط نہیں لگا سکتا۔

’ 75 سالوں سے ہم میں سے کسی نے بھی پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا ’

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسارکیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ہم سیاسی عدم استحکام بھی پیدا کیے رکھیں گے، پھرآپ کہتے ہیں عدالت آپ کی درخواست بھی سنے؟ جس پر درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینون مگر کنڈیشنل تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس عدالت نے آج تک کبھی پارلیمنٹ کو اور نہ ہی کبھی اسپیکر کو ڈائرکشن دی، 75 سالوں سے ہم میں سے کسی نے بھی پارلیمنٹ کا احترام نہیں کیا، صرف پولیٹکل پوائنٹ اسکورنگ کے لئے درخواست پر آرڈر نہیں کرسکتے، بیان حلفی دیں واپس پارلیمنٹ جائیں گے تب ہی سنیں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی کی پالیسی کے خلاف توپارلیمنٹ نہیں جائیں گے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بس پھرمعاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے، 70سال اس پارلیمنٹ کے ساتھ بہت کچھ ہوگیا ۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ واپس جائیں گے یا نہیں، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ بات پارٹی پالیسی پرمنحصر ہے، اگر آپ استعفے منظوری کا آرڈر معطل کردیں تو جا کر اسپیکر سے بات کرسکتے ہیں۔

’ آپ پارلیمنٹ جا کراپنی نیک نیتی ثابت کریں ’

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت سیاسی ڈائیلاگ کے لئے تو آپ کو سہولت فراہم نہیں کرے گی، پٹیشنرز کہہ رہے کہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ایسا کبھی نہیں کہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ سیاسی عدم استحکام برقراررکھنا چاہتے ہیں جوملکی مفاد میں نہیں، عدالت اس درخواست کو کل تک ملتوی کرسکتی ہے، آپ پارلیمنٹ جا کراپنی نیک نیتی ثابت کریں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ خالی قراردی گئی نشستوں پرآگے الیکشن بھی ہونے ہیں، اسپیکر نے ڈکٹیشن لے کراپنے مینڈیٹ کے خلاف 11 ارکان کے استعفی منظورکیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لوگوں نےانہیں منتخب کیا تھاکہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ہو، سیاسی جھگڑوں کوعدالت نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے آدھے گھنٹے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشنرز سے بات کرلیتا ہوں پھر بتاتا ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک گھنٹہ لیں اوراس کے بعد ہمیں آگاہ کریں، بعدازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا ۔

Read Comments