Aaj Logo

شائع 28 نومبر 2022 01:38pm

کیا عمران 2 صوبوں کی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑنے پر تیارہیں

انوار ہاشمی

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سات ماہ کی سیاسی جدو جہد میں حقیقی آزادی مارچ کے ذریعے ملک بھر کے کارکنوں کو جن اہداف کے حصول کا خواب دکھایا تھا ، 26 نومبر کے راولپنڈی پاورشو کے ذریعے ان اہداف کا حصول تو ممکن نہ ہوسکا، مگر اسلام آباد کی طرف یلغارکے اشارے کی آس لگائے کارکنوں کو انہوں نے کچھ نئی سیاسی آس دلا کر واپس تو بھیجنا ہی تھا۔ یوں انہوں نے اس ’‘ کرپٹ نظام ’‘ کا حصہ نہ رہنے کا اعلان کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ وہ مشاورت کے بعد صوبائی اسمبلیوں سے باہرآنے کا فیصلہ جلد کریں گے۔

اسمبلیاں کیسے تحلیل ہوسکتی ہیں، ان کے توڑنے سے کیا عام انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، اس سیاسی، قانونی اور آئینی بحث کو عمران خان اوپن کرکے خبروں میں زندہ رہنے کا سامان پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سیاسی جماعتیں ایوانوں کے اندر اعدادو شمار کے گورکھ دھندے میں کچھ روز تو مصروف رہیں گی۔

صوبائی اسمبلیوں کے اندر شروع ہونے والے شطرنج کے اس کھیل کا جائزہ لینے کے لئے چاروں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی تعداد اورسٹیٹس کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کن صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار تحریک انصاف کے پاس ہے جس کے نتیجہ میں تازہ عام انتخابات کرانے پڑیں گے، اور کن اسمبلیوں کے لیے صرف ضمنی الیکشن کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر اسکا جائزہ لیں تو نہ صرف صورتحال دلچسپ نظر آتی ہے بلکہ اعداد وشمار کے مطابق کچھ اسمبلیوں میں سے تو سیاسی کارڈ تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظرآتا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا اصل ہدف یہ دو صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت ہے بلکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ محمود خان کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔

پنجاب میں صورتحال تھوڑی مختلف ہے۔ تحریک انصاف نے یہاں اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ ملکرحکومت بنا رکھی ہے لیکن وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے۔ اگر ہم اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی آئینی بحث ترک کرکے یہ فرض لیں کہ عمران خان کی ہدایت پر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں دونوں وزراء اعلٰی تحلیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو 90 دن کے اندران دو صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات کرانے ہوں گے۔ اور اس کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والی دونوں اسمبلیاں اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گی۔

ان انتخابات کے نتائج میں اگرتحریک انصاف شکست سے دوچارہوتی ہے تو اس صورت میں قومی اسمبلی کےلئے آئندہ عام انتخابات میں ان دو اسمبلیوں کی طاقت سے پی ڈی ایم کا پلڑا بھاری ہونے کا قومی امکان ہے۔ اس کے برعکس دوسری صورت بڑی ہی دلچسپ ہے۔ اگر ان 3 ماہ کے اندرتحریک انصاف دوبارہ دونوں صوبائی اسمبلیوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اسے دوبارہ ایک سال ان کے بقول اسی کرپٹ نظام کا حصہ رہنا پڑے گا جس سے نکلنے کا انہوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا۔ کیونکہ وفاق، بلوچستان اور سندھ میں تو پرانی اسمبلیاں ہی کام کررہی ہوں گے۔ 90 دن میں صورتحال ’‘ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ’‘ کے مصداق ہوگی۔

سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں

صوبہ سندھ میں اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے۔ تحریک انصاف کے مجموعی اراکان صوبائی اسمبلی کی تعداد 30 ہے جن میں جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے 23 ارکان ہیں۔ چونکہ وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی کا ہے اس لئے سندھ اسمبلی توڑنے کا اختیار تحریک انصاف کے پاس موجود نہیں۔ ایسی صورت میں اگر تحریک انصاف کے ارکان استعفے دیتے ہیں تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو صرف 23 نشستوں پر ضمنی انتخاب کرانا ہوگا۔

چونکہ تحریک انصاف بقول ان کے اس کرپٹ نطام کا حصہ نہیں رہنا چاہتی اس لئے وہ ضمنی انتخاب کے بائیکاٹ کی صورت میں ان 23 نشستوں سے بھی محروم ہوجائے گی۔ جس کے اثرات انہیں آئندہ عام انتخابات میں بگھتنا ہوں گے۔

ایسی ہی صورتحال بلوچستان اسمبلی میں ہے جہاں اگرچہ تحریک انصاف کے 7 ارکان اسمبلی مخلوط حکومت کا حصہ ہیں، مگر وزیراعلیٰ کسی اور جماعت کا ہونے کی وجہ سے یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار تحریک انصاف کے پاس نہیں۔ ایسی صورت میں 7 ارکان کے مستعفیٰ ہونے سے وہاں کی حکومت کو ان نشستوں پر ضمنی انتخاب کرانا ہوگا۔ تحریک انصاف نہ صرف ان 7 نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی بلکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی ان حلقوں میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسی صورت میں پی ٹی آئی کیا ہدف حاصل کرے گی؟

تحریک انصاف وفاق کی اسمبلی سے پہلے ہی مائنس ہے، اس فیصلے سے سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے باقی پارلیمانی سال کےلئے مائنس ہوتی نظر آرہی ہے۔ پنجاب حکومت تو پہلے ہی پی ڈی ایم کے پاس نہیں ہے، عمران خان کےلئے پرویزالہٰی کے ساتھ اتحاد کا سفر پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے، ایسے میں اگر آصف علی زرداری شطرنج کے کھیل میں کوئی اچھی چال چل گئے تو پنجاب کی بساط بالکل ہی ہاتھ سے نکل جائے گی۔

ایک پہلو جو خود عمران خان کی نظر میں پوشیدہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ وفاق کے ڈر سے جب ان کے لئے اپنے بنی گالہ کے گھر میں رہنا مشکل ہوچکا ہے، اگر وہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی محفوظ پناہ گاہیں ہی گنوا بیٹھے تو آئندہ انتخابات کی تیاری تک ان کے پاس کوئی بیس کیمپ ہی نہیں ہوگا۔

ایسے میں تحریک انصاف ملک بھرمیں قبل ازوقت عام انتخابات کرانے کا ہدف تو حاصل کرتی نظرنہیں آرہی لیکن 4 اسمبلیوں میں اعدادو شمار کا اکھاڑ پچھاڑ کرکے مخالفین کو اس امتحان میں ضرور مصروف رکھے گی۔

Read Comments