Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2022 03:08pm

لاڑکانہ کی ایچ آئی وی وبا سے محفوظ رہنے والے معجزاتی بچے

سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر رتوڈیرو میں تقریباً ساڑھے تین سال قبل ایک چھ ماہ کی بچی کو ڈاکٹر عمران اربانی کے کلینک لایا گیا۔ بچی شدید بخار میں مبتلا تھی، اس کا وزن تیزی سے کم ہورہا تھا اور کئی ڈاکٹروں سے علاج کرانے اور دواؤں کے استعمال کے بعد بھی بخار کی شدد میں کمی نہیں آرہی تھی۔

ملیریا اور ٹائیفائڈ جیسے امراض کی ٹیسٹ رپورٹس بھی منفی آئی تھیں۔ جس پر ڈاکٹر اربانی نے مریضہ کا ایچ آئی وی ٹیسٹ کروانے کی تجویز دی، اور حیرات انگیز طور پر ٹیسٹ مثبت آگیا۔

ٹیسٹ کے نتائج دیکھ کر ڈاکٹر نے والدین کو اپنا ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی، اور انہوں نے کرایا بھی، مگر ماں اور باپ دونوں میں مرض ظاہر نہ ہوا۔

ڈاکٹر کا ماننا تھا کہ یہ وائرس یقیناً کسی ڈاکٹر سے لگا ہے کیونکہ یہ مرض خون کے ذریعے پھیلتا ہے۔

عمومی طور پر یہ وائرس مقعد اور اندام نہانی کے زریعے قائم کئے گئے جنسی روابط، کئی لوگوں میں ایک ہی انجیکشن کا استعمال، جراحی کے آلات یا حجام کی دکان کے سامان کے ذریعے منتقل ہوتا ہے، جو کہ ایچ آئی وی پازیٹیو خون کے رابطے میں آنے کے بعد بنا جراثیم کشی دوبارہ استعمال کئے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اربانی نے اس کے بعد آنے والے تمام مریضوں کا ٹیسٹ کروانا شروع کیا اور اگلے 20 دن میں 20 کیسز مثبت آگئے۔ ان کیسز میں سے 15 کا ٹیسٹ پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشی ایٹو (پی پی ایچ آئی) اور پانچ کا آغا خان اسپتال سے کرایا گیا۔

آج نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اربانی نے کہا کہ ”تین سال میں کوئی ایکدن ایسا نہیں جس میں ایک نیا ایچ آئی وی کیس تشخیص نہ ہوا ہو۔“

خبر پھیلی تو اس وقت کے ہیلتھ سیکڑیٹری سعید احمد اعوان نے لاڑکانہ میں میڈیکل کیمپز قائم کرنے کی ہدایت کی۔ ان کیمپس میں آنے والے تمام لوگوں کا ٹیسٹ کیا جاتا اور مثبت آنے کی صورت میں انہیں ڈاکٹر سے رجوع کرنے کو کہا جاتا اور ان کا علاج شروع ہوجاتا۔

اس وقت تک ضلع لاڑکانہ صرف عالمی ثقافتی ورثے ”موہن جو دڑو“ اور بھٹو خاندان کی ریاست کے طور پر مشہور تھا۔

ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کی ہدایت پر اُس وقت کے ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش نے ہنگامی کارروائی کرتے ہوئے پرائیویٹ پریکٹشنرز اور عطائی ڈاکٹروں کو کام کرنے سے روک دیا۔

اسی کارروائی کے دوران ڈاکٹر مظفر گھانگھرو کو گرفتار کیا گیا جن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے باضابطہ طور پر اپنے مریضوں میں ایچ آئی وی پھیلایا۔ لیکن پولیس نے بعد میں انہیں رہا کردیا اور گرفتاری کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں اس خدشے کے پیش نظر حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا کہ اس وقت کے حالات اور تاثر کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ ان کا کلینک آج تک بند ہے۔

ماہرامراض اطفال ڈاکٹر گھانگھرو پولیس کی حراست کے دوران۔ تصویر: فائل

موجودہ صورت حال

ڈاکٹر عمران اربانی کے مطابق اگست 2019 کے بعد آج لاڑکانہ میں قائم ایچ آئی وی سپورٹ سینٹر میں ایچ آئی وی اسکریننگ کرانے والے مریضوں کی تعداد 47 ہزار سے زائد ہے۔

سپورٹ سینٹر چلانے والی ڈاکٹر شاہدہ میمن کا کہنا ہے کہ اب تک اسکرین کیے گئے 47 ہزار افراد میں سے 2 ہزار 178 افراد کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ ”ان میں ایچ آئی وی پازیٹو بچوں کی تعداد 1 ہزار 435 ہے جس میں 743 بالغ ہیں۔“

ڈاکٹر شاہدہ بتاتی ہیں کہ سینٹر نے سندھ میں حکومت کے قائم کردہ 16 مراکز میں تقریباً 10 لاکھ ٹیسٹ کیے ہیں۔

اب تک رتوڈیرو میں ایچ آئی وی سے 65 اموات ہو چکی ہیں۔ آج ڈیجیٹل سے بات کرنے والے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دوگنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہلاکتوں کے رپورٹ شدہ کیسز میں سے 60 بچے اور پانچ بالغ تھے۔

دوسری جانب نام نہاد حکیم، عطائی اور غیر قانونی میڈیکل پریکٹیشنرز دوبارہ اپنے کاروبار شروع کرچکے ہیں، جب پولیس سے ان کے دوبارہ عروج کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

ڈاکٹر اربانی کا مزید کہنا تھا کہ ”گورنمنٹ کو اس بات پر کام کرنا ہوگا کہ اسباب کیا ہیں، اسکریننگ کے کام کو بھی مزید بڑھانا پڑے گا۔“

ڈاکٹر اربانی کا کہنا ہے کہ ایک بڑی اور جامع کارروائی ہی کیسز کے اس نہ رکنے والے سلسلے کو روک سکتی ہے۔

ان کے مطابق اگر یہ کام نہ کیے گئے تو ”کیسز کا نہ رکنے والا یہ سلسلہ“ چلتا چلا جائے گا۔ مکمل اسکریننگ ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ رتو ڈیرو ایک ہائی رسک کمیونٹی بن گئی ہے، ”زیادہ پیمانے پر اسکریننگ ہوگی تو پتا چلے گا کہ اصل میں کتنے لوگ پازیٹیو ہیں“۔

ان تین سالوں میں حیرت انگیز طور پر 20 بچے ایسے پیدا ہوئے جن کے والدین میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی مگر پیدائش پر بچے نارمل تھے۔

ڈاکٹر اربانی کے مطابق اگر کوئی ایچ آئی وی میں مبتلا خاتون حاملہ ہوجائے مگر مکمل طور پر دواؤں کا استعمال کرتے رہے تو بچے کا ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے کا چانس کم ہوتا ہے، اسی طرح آپریشن کے ذریعے پیدا ہوئے بچوں میں بھی ایچ آئی وی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

بھٹو خاندان کی پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں پچھلے پندرہ سالوں سے برسراقتدار ہے۔ پارٹی کو صوبے کے شہری مراکز میں صحت سے متعلق سہولیات متعارف کرانے میں کچھ کامیابی ملی ہے، لیکن وہ چھوٹے شہروں اور دیہی مراکز میں بنیادی ڈھانچے یا سہولیات بشمول شعبہِ صحت کو بہتر بنانے میں ناکام رہی۔ اس میں ان کا آبائی ضلع لاڑکانہ بھی شامل ہے۔

قیامت کے درمیان معجزہ

ان ساڑھے تین سالوں میں حیران کن طور پر 90 ایسے بچے پیدا ہوئے جن کے والدین میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی، لیکن پیدائش کے وقت بچوں میں وائرس کی کوئی علامت نہیں تھی۔

ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا ہے کہ یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ رتوڈیرو میں سینٹر کھولا گیا جس میں تین کلینک ہیں، ایک بچوں کے لیے، ایک بڑوں کے لیے اور تیسرا والدین سے بچوں میں ایچ آئی وی کی منتقلی کی روک تھام کے لیے ہیں۔

ڈاکٹر شاہدہ نے کہا کہ، ”اسی بدولت، حمل کے دوران ایچ آئی وی کی تشخیص ہونے والی 80 حاملہ خواتین نے وائرس کے بغیر نارمل بچوں کو جنم دیا۔“

انہوں نے کہا کہ، ”اگر ہم عمودی ٹرانسمیشن کو روک سکتے ہیں، تو ہم اسے دوسرے ٹرانسمیشن پوائنٹس پر بھی روک سکتے ہیں۔“

مرکز مریضوں کی اسکریننگ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وائرس، اس کی وجوہات اور اس کی علامات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے آگاہی کا پروجیکٹ بھی چلا رہا ہے۔

ڈاکٹر شاہدہ نے کہا کہ اسی منصوبے کے تحت، مرکز میں رجسٹرڈ 250 سے زائد بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”تین سالوں میں درج ہونے والے کیسز کی تعداد میں کمی آئی ہے، لیکن ابھی مزید کام کرنا باقی ہے۔“

ڈاکٹر اربانی کے مطابق، اگر ایچ آئی وی پازیٹیو خاتون اپنے حمل کے دوران مناسب علاج کرواتی ہیں، تو بچے میں وائرس کے منتقل ہونے کے امکانات نمایاں طور پر کم ہو جاتے ہیں۔

ضلع لاڑکانہ کے رہائشیوں کی اکثریت غربت کا شکار ہے، جن میں متاثرہ خاندان کے افراد بھی شامل ہیں۔ اسی وجہ سے سندھ حکومت نے اس سال سے فی متاثرہ فرد کو 3000 روپے ماہانہ الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے۔

ڈاکٹر میمن نے کہا کہ پچھلی دو قسطوں میں تاخیر کے بعد، ہر مریض کو اگلی قسط میں 12,000 روپے فراہم کیے گئے۔

آج نیوز نے ایک والد سے بات کی جس کے دو بچے ایچ آئی وی کی وجہ سے وفات پا گئے اور دو بچے زیرِ علاج ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک ڈاکٹر کی غلط پریکٹسز کی وجہ سے بہت سے بچے اس مرض میں مبتلا ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ”حکومت نے جن فنڈز اور الاؤنس کا اعلان کیا تھا وہ بھی آنا بند ہوگیا“۔

انفیکشن کنٹرول سوسائٹی نے اس ہفتے کے شروع میں کراچی میں ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں یو این ایڈز کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2021 میں پاکستان میں ایچ آئی وی/ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد دو لاکھ 10 ہزار تھی۔

پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ پاکستان میں اس بیماری کے پھیلاؤ کی شرح 0.2 فیصد تھی، گزشتہ سال اس وائرس کی وجہ سے 9,600 اموات ہوئیں۔

طبی جریدے لانسیٹ کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایچ آئی وی کی وبا کلیدی آبادیوں میں مرکوز ہے، جن میں انجیکشن کے زریعے منشیات لینے والوں 4.38 فیصد، مرد جنسی کارکنون میں 6.5 فیصد، خواتین جنسی کارکنوں میں 2.2 فیصد، ٹرانسجینڈر جنسی کارکنوں میں 5.7 فیصد، مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والے مردوں میں 4.5 فیصد اور ٹرانسجینڈرز میں 1.7 فیصد لوگ ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔

سال 2018 میں پاکستان کے لیے UNAIDS کی ملکی پروگریس رپورٹ نے پاکستان کے ایڈز ریسپانس پروگرام میں اہم مسائل کو اجاگر کیا۔

”مثال کے طور پر، 2010 میں وزارت صحت کی صوبوں کو منتقلی کے بعد سے، وفاقی اکائیوں کے درمیان کمزور ہم آہنگی، صحت کے حکام کی جانب سے عزم کی کمی، ایچ آئی وی کیسز کی رپورٹنگ میں خامیوں، ایچ آئی وی کی انٹروینشن میں فرق، مؤثر کمیونٹی کی مصروفیت کا فقدان، اور غیر رجسٹرڈ اور نااہل لوگوں (جنہیں مقامی طور پر ”عطائی“ کہا جاتا ہے) شامل ہیں۔“

دنیا آج ”ورلڈ ایڈز ڈے“ منا رہی ہے۔ یہ رپورٹ اسی مناسبت سے تیار اور شائع کی گئی۔

Read Comments