Aaj Logo

شائع 20 مارچ 2023 08:53pm

عمران کی دروازے پر حاضری اور دستاویز کی گمشدگی، ’جج صاحب نے دباؤ میں فیصلہ کیا‘

پاکستان کے معروف اور سینئیر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ یہ ایک سوچا ہوا بہانہ ہے اپنے اُس عمل کو جسٹیفائی کرنے کیلئے جس کا بالکل بھی کوئی جواز نہیں تھا، کہا گیا کہ عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکش میں عدالتی دروازے کے تھوڑا اندر آئی اور پھر واپس چلی گئی کیونکہ پتھراؤ شروع ہوگیا تھا۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے عمران خان کی عدالتی پیشی کے موقع پر کمرہ عدالت کی اندرونی کہانی بیان کی۔

انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو سازش کا پتا تھا تو کیسے وہ لاہور سے اسلام آباد آئے، عدالت میں اندر تک آئے اور واپس چلے گئے۔ انہیں کب پتا چلا کہ اندر کچھ لوگ موجود ہیں۔ ہم نے عدالتی قتل تو سنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی کارروائی کے بعد قتل کرایا گیا تھا، لیکن یہ کیسا بہانہ ہے کہ میں عدالتی کمرے میں اکیلا ہوں گا اور مجھے وہاں ماردیا جائے گا۔ یہ ایک فوبیا ہے۔ یہ بہانہ ہے کہ عمران خان عدالت میں پیش ہونا ہی نہیں چاہتے۔

سینئیر صحافی نے بتایا کہ اگر وہ عدالت میں پیش ہوجاتے تو قانونی اعتبار سے ان پر فرد جرم عائد ہونی تھی۔ اگر ایک مرتبہ فرد جرم عائد ہوجائے تو اس کے فوراً بعد معاملات بہت تیزی سے آگے چلتے ہیں، اور اس حوالے سے کیس کا فیصلہ بھی آسکتا تھا۔ اور وہ فیصلہ اچھی طرح جانتے ہیں، کیونکہ جو شواہد ، گواہان اور ثبوت موجود ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ جو آمدنی انہوں نے توشہ خانہ تحائف کو بیچ کر حاصل کی وہ انہوں نے متعلقہ سال کے گوشواروں میں الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر نہیں کی۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ عمران خان کے وکلاء کمرہ عدالت میں موجود تھے، انہوں نے جج صاحب کو کیوں نہیں بتایا کہ کمرے میں خطرہ ہے، کوئی حملہ آور موجود ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جج صاحب ذہنی اور نفسیاتی طور پر یرغمال بن چکے تھے، ان کی باڈی لینگویج سے نظر آرہا تھا کہ وہ شدید دباؤ کا شکار ہیں، ان کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ جب انہیں بتایا گیا عدالتی دستاویز کھو گئی ہیں اور گمی کس سے ہیں، ایک سینیٹر شبلی فراز، ایک وکیل گوہر اور ایک ایس پی لیول کا پولیس کا باوردی افسر۔ تو بجائے سخت نوٹس لینے کہ انہوں نے آج فیصلے میں بھی ایسے تحریر کیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، انہوں نے کہا کہ میرے کمپیوٹر سے ایک اور پرنٹ آؤٹ نکال لیتے ہیں، یعنی وہ ایک عدالتی فائل تھی۔

مطیع اللہ جان نے کہا کہ جج صاحب نے اپنے آرڈر میں لکھ دیا کہ بس جی حاضری ہوگئی، یعنی جان چھڑائی ہے۔ تو یہ ذہنی دباؤ تھا جس کے اندر ڈسٹرکٹ باینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے تمام کارروائی کی۔

ان کا مزید کہنا تاھ کہ جب ایک ایس پی لیول کا لمبا تڑنگا 36 38 انچ کی چھاتی والا افسر روتا پیٹتا اندر آئے کہ جی میری ٹانگ میں فریکچر ہوگیا میں بیہوش ہوگیا تھا، تو جج صاحب کا کیا حال ہوگا۔ انہوں نے اہنے دائیں بائیں دیکھا تو صرف ایک سپاہی کو پایا اور سمجھ گئے کہ عمران خان اندر آیا تو پورا ہجوم بھی ساتھ آئے گا اور پھر انہیں بھی بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے تمام پچھلے فیصلے نظر انداز کردئے اور جان چھڑائی۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کہا کہ میں خان صاحب کے آج کے بیان کا خیر قدم کرتا ہوں کہ جو انہوں نے کہا کہ میرا ملک میری فوج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ججز سے گزارش کروں گا کہ اگر ایک آدمی کی ضد اور انا کا مسئلہ بن گیا ہے، کوئی صورت حال ایسی آجاتی ہے کہ تصادم کا خدشہ ہو تو آپ آن لائن سماعت کرلیں۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر ولید اقبال کا کہنا تھا کہ میں پرائے گھر میں ہوں ، میں اپنے گھر پر رات نہیں گزار سکتا۔ نگراں حکومت کل رات سے گھروں میں چھاپے مار رہی ہے۔ نگراں حکومت کا مقصد شفاف انتخابات کرانا تھا، چھاپے مارنا نہیں تھا، انتخابات آنے والے ہیں اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید لطیف نے میزبان کے سوالات کا وجاب دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہیں، ن لیگ پر الزام ہے کہ سپریم کورٹ پر حملہ کیا، کچھ لوگ بغیر اجازت سپریم کورٹ میں داخل ہوئے تھے، احاطہ عدالت میں کچھ گملے ٹوٹے تو کہا گیا حملہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے حملے کئی بار کرچکی ہے، پی ٹی آئی نے عدالتوں میں توڑ پھوڑ کی، شیل برسائے، لیکن عدلیہ پر حملے کا الزام صرف ن لیگ پر آتا ہے۔

Read Comments