Aaj Logo

اپ ڈیٹ 07 اپريل 2023 03:26pm

الیکشن کا جوا کھیلنے پرحکومت اور اسٹیبلمشنٹ کیوں تیارنہیں

“… فوج انتخابات کے ساتھ جوا کھیل رہی تھی۔ بہرحال، بدترین صورت حال میں، اسے بنگالی اکثریتی حکومت اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے جو حکومتی نظام کو غیر مرکزی بنانے اور مسلح افواج کو کمزور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تو یحییٰ نے اس کا خطرہ کیوں مول لیا؟’’ ، یہ سوال اٹھانے والے اوون ایل سرس نے پاکستان کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی سے متعلق اپنی کتاب میں اس کا جواب دیا ہے۔

1970 میں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے عام انتخابات پر جوا کھیلا اور آدھے ملک سمیت سب کچھ کھو دیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے مطابق پچاس سال بعد پاکستان کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔

راولپنڈی میں مسلم لیگ (ن) کے وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ملک اب بھی 1970 کے انتخابات کی قیمت چکا رہا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کی درخواست پر پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تو لوگوں کو اکثر 1970 کے انتخابات کی یاد دلائی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان انتخابات کو ملک کی تاریخ میں واحد آزاد اور منصفانہ انتخابات کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ اکیلے نہیں ہیں جنہوں نے موجودہ سیاسی صورتحال کا موازنہ 1970 سے کیا ہے۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کئی رہنمابھی ایسا کرچکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ 1971 میں اس وقت کی مقبول ترین سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا اور آج بھی یہی سلسلہ دہرایا جا رہا ہے۔

رانا ثناء اللہ اور ان کے ساتھی انتخابات میں ہرچیز کا جوا کھیلنے کو تیار نہیں ہیں، چاہے پی ٹی آئی کے مطابق اس کا مطلب آئین کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن 1970 میں جنرل یحییٰ نے ایسا کیا اور کیوں کیا ؟ ہم تاریخ میں اس وقت سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

اوون ایل سرس اس کا الزام آئی ایس آئی کے غلط فیصلوں پر عائد کرتے ہیں۔ 1948 میں قائم کی جانے والی یہ انٹیلی ایجنسی ،انٹیلی جنس بیورو کے مقابلے میں ابھی کافی جوان تھی۔ جو 1885 میں برطانوی فوج کے میجر جنرل سر چارلس میک گریگر نے تشکیل دی تھی۔

سرس کہتے ہیں کہ آئی بی واضح طور پر زیادہ تجربہ کار تھا اور “بنگالی افسران کے ایک تجربہ کار کیڈر کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی سیاست میں کافی مہارت رکھتا تھا۔ لیکن ایوب حکومت کے دنوں سے ہی یہ زوال کی راہ پر گامزن تھا اور اسے اپنی اجارہ داری آئی ایس آئی اور ایم آئی یا ملٹری انٹیلی جنس کے حوالے کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

قصہ مختصر آئی بی کی پیشگوئی درست تھی کہ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، لیکن آئی ایس آئی اور یحییٰ کی قیادت میں دیگر ایجنسیوں نے اصرار کیا کہ “کوئی بھی جماعت قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل نہیں کرے گی، جس سے نمائندوں کی خرید و فروخت اور کابینہ تشکیل دینے کے لئے اتحاد قائم کرنے کی گنجائش باقی رہ جائے گی۔

بدقسمتی سے حکومت نے آئی بی کی مہارت کا بہتر استعمال نہیں کیا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مشرقی پاکستان کا بحران مختلف شکل اختیار کرسکتا تھا۔

پاکستان میں سیاستدان اپنی غلطیوں سے شاذ و نادر ہی سیکھتے ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ ایسا کرتی ہے اور اس کے طریقے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔

سنہ 1970 میں مختلف اضلاع میں تعینات آئی ایس آئی کے افسران نے ’مقامی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی‘ اور ایجنسی کے حتمی جائزے میں عوامی لیگ کی جانب سے یکطرفہ طور پر حکومت بنانے کے لیے مقننہ میں کافی نشستیں جیتنے کے امکان کو نظر انداز کر دیا گیا۔

تیزی سے آج کی طرف بڑھیں، آپ یہ یقین کرنے میں غلط نہیں ہوں گے کہ انٹیلی جنس کمیونٹی مقامی جذبات کو ابھارنے میں زیادہ محتاط ہے. پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں الجزیرہ کو بتایا کہ اپریل 2022 میں انہیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے پی ٹی آئی نے 37 میں سے 30 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔

حکمراں جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے اس لیے کامیابی حاصل کی کیونکہ انہیں اب بھی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حامد کی خفیہ حمایت حاصل ہے جو نومبر کے آخر میں منظر سے ہٹ گئے تھے، دوسری جانب پی ٹی آئی یہ دلیل دے گی کہ جنرل باجوہ وہ شخص تھے جنہوں نےپی ڈی ایم کو عمران خان کو ہٹانے کے قابل بنایا، تو وہ ضمنی انتخابات میں ان کی حمایت کیوں کریں گے؟

ایک اوروضاحت یہ ہے کہ کارندے انتخابی نتائج کا استعمال کرتے ہوئے عوامی جذبات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لہٰذا، ووٹ مداخلت سے پاک تھا۔

نومبر سے اب تک قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست پرانتخاب ہوئے ہیں جس مین پی ٹی آئی نے بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی ہے۔ قومی اسمبلی کی کئی نشستوں پر انتخابات 30 اپریل کیلئے شیڈول ہیں۔

عمران خان ان 37 ضمنی انتخابات میں 30 نشستوں پر کامیابی کو بطور ایک پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران اتحاد کو ’اسٹیبلشمنٹ‘ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مکمل حمایت کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

عمران خان نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے جا رہی ہے اور اسی لیے حکومت انتخابات سے خوفزدہ ہے اور بھاگ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے یہ نہیں کہا کہ اگر ہمیں دو تہائی اکثریت نہیں ملی تو میں انتخابی نتائج کو قبول نہیں کروں گا‘۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کرانے سے نہیں ڈرتی لیکن عمران خان نتائج قبول نہیں کریں گے اور سڑکوں پر نکلیں گے۔

دیکھا جائے تو رانا ثناء یہ بیان دینے میں مکمل طور پر غلط نہیں ہیں.

الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نتائج کو قبول کریں گے یا نہیں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ انتخابات میں کیا ہوگا اور الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کیسا برتاؤ کرے گی‘۔

جب مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے 1970 میں 300 میں سے 167 نشستیں حاصل کیں تو انہوں نے اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کیا۔ یحییٰ نے بھٹو کی درخواست پر نومنتخب اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کو مؤخر کردیا جس میں پیپلز پارٹی 86 نشستوں کے ساتھ دوسری سب سے بڑی جماعت تھی۔

وہ بات کرنا چاہتے تھے، مجیب حکومت کی تشکیل پر بات چیت کے لیے تیار تھے لیکن ان پر واضح کردیا گیا تھا کہ ان کے چھ نکات پر بات نہیں ہوگی نہ ہی گول میز کانفرنس منعقد کی جائے گی جیسا کہ انہوں نے7 مارچ 1971 کو اپنے حامیوں کو بتایا تھا۔

ان چھ نکات نے انتخابات سے بہت پہلے ہی مغربی پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔

مجیب نے فوج پر اپنے لوگوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سول نافرمانی کا مطالبہ کیا۔ ان کی پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ٹیکس جمع کرنا شروع کیا جو عوامی لیگ کے اصل کنٹرول میں آگیا تھا۔

یہ یحیٰی حکومت کی جانب سے 25 مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ شروع کرنے سے دو ہفتے قبل کی بات ہے، جس سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔

بریگیڈیئر صدیق سالک، جو اس وقت میجر تھے اور مشرقی پاکستان میں تعینات تھے، نے اپنی کتاب ’وٹنس ٹو سرنڈر‘ میں اس آپریشن کو سب سے بڑی غلطی قرار دیا ۔

صدیق سالک کے مطابق حکومت کو بات چیت کرنی چاہیے تھی۔

لیکن کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ مجیب کے نزدیک ملک پر حکومت کرنے کا حق ان کا تھا۔

یہ بات بھٹو اور مجیب کے درمیان راولپنڈی میں ہونے والی بات چیت سے واضح ہوتی ہے جب مجیب 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے چند ہفتوں بعد بھی مغربی پاکستان میں زیرحراست تھے۔

20 دسمبر 1971 کو بھٹو کے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کی ملاقات مجیب سے ہوئی جنہیں میانوالی جیل سے راولپنڈی لے جایا گیا تھا۔

اس ملاقات کی تفصیلات نیویارک ٹائمز نے 18 جنوری 1972 کی ایک رپورٹ میں شائع کی تھیں۔

ایک اور موقع پر جب بھٹو صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ دونوں بازوں(مشرقی اورمغربی پاکستان) اب بھی قانون اور روایات کے مطابق متحد ہیں تو شیخ مجیبنے انہیں یاد دلایا کہ عوامی لیگ نے گزشتہ انتخابات میں قومی اکثریت حاصلکی تھی، جس کے نتائج کا کبھی احترام نہیں کیا گیا تھا۔ مجیب کا کہنا تھا،”ٹھیک ہے، اگر پاکستان اب بھی ایک ملک ہے، تو آپ صدر اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نہیں ہیں۔ میں ہوں۔“

1970 ء کے انتخابات کے بعد مغربی پاکستان میں لوگ مجیب الرحمان اور مشرقی پاکستان میں بھٹو کے ساتھ کام کرنے کو تیار تھے۔

لیکن وہ قومی اتفاق رائے کبھی نہیں آیا۔ ثالثوں کو توقع تھی کہ ایک معلق پارلیمنٹ اور اس کے بعد مذاکرات ہوں گے لیکن ان کا حساب غلط ہو گیا۔

سیاست دانوں نے بھی درست جمع تفریق نہیں کی۔

مجیب الرحمان جو بنگلہ دیش کے وزیر اعظم بنے تھے، انہیں 15 اگست، 1975 کو اپنے ہی لوگوں نے قتل کردیا تھا یعنی4 اپریل، 1979 کو بھٹو کو پھانسی دیے جانے سے تقریباً 4 سال قبل۔

انگریزی کے اصل متن سے ترجمہ

Read Comments