Aaj Logo

اپ ڈیٹ 11 مئ 2023 10:54pm

’ہمارے پاس طاقت موجود ہے کہ ٹی ٹی پی جہاں بھی ہو اس سے نمٹ سکیں‘

وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) ایک گلدستہ ہے جو خطے میں روابط کے پاکستانی خواب کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اس تنظیم کے بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن میں پاکستان ایک براہ راست متاثر فریق ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا، جیسا کہ سیکیورٹی، جس کیلئے ان کی ایک علیحدہ سے تنظیم بھی ہے جسے ”ایس سی او ریٹس“ (ریجنل اینٹی ٹیررسٹ اسٹرکچر) کہا جاتا ہے، جس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور انٹیلیجنس شئیرنگ کی جاتی ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کرسکیں، بجائے اس کے کہ دہشتگردی مل کر ہمارا خاتمہ کردے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ہمارے وزیر خارجہ نے ملک کے بہترین مفاد میں اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا، اس کے باوجود کہ انہیں پتا تھا سیاسی ردعمل آئے گا۔ کیونکہ پاکستان کیلئے وہ سیٹ خالی نہ چھوڑنا اہم تھا۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ وزیر خارجہ نے ایس سی او فورم پر پاکستان کے مختلف مؤقف بیان کئے، جس میں دہشتگردی بھی یقیناً آتی ہے کیونکہ ہم دہشتگردی کا حل چاہتے ہیں، ’ٹیررازم کو وپنائز نہیں کرنا چاہتے‘، انہوں نے بالکل یہی کہا۔

وزیر مملکت برائے خارجہ نے کہا کہ ’انہوں نے کسی ایک ملک کو نہیں کہا، کسی ایک ملک کو لگا شاید‘، انہوں نے عام بات کرتے ہوئے ایک اصطلاح استعمال کی جس پر جے شنکر صاحب نے بہت پوچھا کہ یہ کس طرح کا لفظ ہے۔

انہوں نے اس اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی ایک حقیقی مسئلہ ہے، جب اسے سفارت کاری کے آلے کے طور پر استعمال کیا جائے، دہشتگردی کو فروغ بھی دیا جائے اور اسے استعمال بھی کیا جائے تو وہ ”ویپنائزیشن آف ٹیررازم“ ہے۔

حنا ربانی کھر نے جے شکر کے بیان پر سوال اٹھایا کہ ’آپ ”وکٹم آف ٹیررازم“ (دہشتگردی کے متاثرین) کی بات کرنا چاہتے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو بتائیں کون کتنا بڑا وکٹم آف ٹیررازم ہے؟ اور آپ بات کس سے کر رہے تھے؟ بلاول بھٹو زرداری سے؟ ان کی آپ کو ہسٹری نہیں پتا؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اسے اس طرح دیکھتے ہیں کہ ایک موقع جس میں جگہ بنائی جاسکتی تھی، اس میں بھارتی وزیر خارجہ نے خود چناؤ کیا کہ سکڑاؤ پیدا ہو اور جگہ نہ بنائی جاسکے۔

وزیر خارجہ کے دورہ بھارت پر ان پر الزام عائد کیا گیا کہ کشمیر کا سودا کردیا گیا؟ اس بات کے جواب میں حنا ربانی کھر نے کہا کہ کیا ہم پروپیگنڈا سے ان کے مفادات کو کامیاب کر رہے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا معاملہ جواہر لال نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے پاکستان نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایک آوارہ ریاست بن جائیں اور بار بار کچھ غلط کرتے جائیں اور کہیں کہ ہم بہت بڑے ہیں اب ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں، آپ ہمیشہ جھوٹ نہیں بیچ سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ خطہ ہمارے کئے گئے فیصلوں کی وجہ سے سب سے بدقسمت خطہ ہے، اب کیا ہم ان کی تصحیح کریں گے؟

کیا لگتا ہے افغانستان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی بات مانے گا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس لگتا یا نہیں لگتا کا آپشن نہیں ہے، ’ہر کسی کو ہارڈ ہیڈڈلی (گھاگ طریقے سے) پوئگننٹلی (ہوشیاری سے) فوکسلی (توجہ کے ساتھ) اپنے قومی مفاد کا تعاقب کرنا ہوگا، پاکستان کا قومی مفاد سب سے پہلے پاکستانیوں کی زندگی کا تحفظ ہے، اس کو اگر کسی طرف سے خطرہ ملتا ہے تو ہمارے جو بھی پارٹنرز ہیں ، جن کے ساتھ کسی قسم کے دروازے کھل سکتے ہیں، وہ اس پیشگی شرط پر قائم ہیں، یہ ہماری اولین ترجیح ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں عبوری حکامت میں جو ہمارے پارٹنرز ہیں ان سے ہر طرح سے ہر لیول پر ہم آہنگی کے ساتھ یہ بات ان کے ساتھ کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا ہر قسم کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور پہلے بھی بند تھا۔ بدقسمتی سے ان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ جب کھلا تو اس کے جو اثرات تھے وہ بہت بھیانک نکلے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ آپ ایک غلطی کو ایک مرتبہ تو کرلیتے ہیں ، لیکن بار بار ایک خراب کہانی کو تو نہیں دہرائیں گے۔ ’ایک جگہ جہاں سے آپ کو بہت زیادہ نقصان ہو، کیا آپ وہ دروازہ بار بار کھولیں گے اور اس میں سے جھانکنا چاہیں گے؟ یا آپ اس کو ٹائٹ شٹ (مضبوطی سے بند) کرکے کہیں گے کہ آئی نیڈ ٹو گو ٹو دی الٹرنیٹ (مجھے متبادل کی جانب جانے کی ضرورت ہے)۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ کیا کارروائی کی، ’ہمارے پاس تو طاقت ہے کہ ٹی ٹی پی سے نمٹ سکیں ، وہ جہاں بھی ہو‘۔

Read Comments