شائع 06 ستمبر 2016 02:51pm

موہن جو دڑو فلم  سے تاریخ داں ناخوش

ممبئی :وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں بولی وڈ کی کچھ عرصہ قبل ریلیز ہونے والی فلم ’موہن جو دڑو‘ سے مورخین خوش نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کی قدیم تہذیب کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سے تاریخ کی صحیح عکاسی نہیں ہوتی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں ہیرو آریانہ دور کا زیادہ لگتا ہے نہ کہ موہن جودڑو کے وقت کا کیونکہ وہاں کے باسی ممکنہ طور پر سیاہ رنگت کے ہوا کرتے تھے،بہرحال انڈیا کے بہت سے تنقید نگار اور مورخین کو اس فلم میں اس دور کو افسانوی انداز میں پیش کرنے کو پسند نہیں کیا ہے۔

ہندی فلموں سے متعلق کتاب ’بالی بک‘ کی مصنف دیپتا کیرتی کا کہنا ہے کہ تاریخی فکشن تو افسانے کو ایک مستند تاریخی ماحول میں تخلیق کرنا ہے۔ ’لیکن ایسا لگتا ہے جیسے بولی وڈ میں ایک اچھی کہانی کے لیے تاريخ کو تو ہوا میں ہی اچھال دیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ لوگ بھی اس بات کو اسی وقت اچھی طرح سمجھ بھی گئے تھے کہ فلم ساز نے تسلیم شدہ تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے جب فلم کے ٹریلر ریلیز ہوئے تھے۔سوشل میڈیا پر بھی بہت سے لوگوں نے اس پر یہ کہہ کر نکتہ چینی شروع کر دی تھی کہ یہ تو ایک تاریخی دور کو گلیمرائز طریقے سے پیش کرنے کی کوشش ہے۔

وہ والدین جو اپنے بچوں کے ساتھ فلم دیکھنے گئے وہ اس مایوسی کے ساتھ واپس آئے کہ اس فلم میں تاریخ سے زیادہ تو رومانس ہے۔دہلی میں رہنے والی تاریخ کی ایک استانی واسو دتّہ سرکار کا کہنا ہے کہ ’فلم کا اسکول کے بچوں پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اس سے وہ کنفیوز ہو سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فلم اشوکا میں بھی بہت سی تاریخی حقائق مسخ کر کے پیش کیے گئے تھے جس سے تاریخ کے بہت سے طلبا تذبذب کا شکار ہوئے۔

اس فلم میں سن  دوہزار سولہ قبل مسیح کا زمانہ دکھایا گیا ہے اور ہیرو، شرمن، کا کردار اداکار ریتک روشن نے نبھایا ہے جو ایک کاشتکار کے طور پر کام کرتا ہے جبکہ ہیروئن کا کردار پوجا ہیگڑے نے ادا کیا ہے جو ایک پجاری کی بیٹی ہے۔ فلم کے کلائمیکس میں تباہی مچانے والاایک سیلاب آتا ہے جس سے پوری بستی میں پانی بھر جاتا ہے اور پھر ہیرو بڑی بہادری کے ساتھ لوگوں کو اس مصبیت سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔

 یہ فلم معروف ہدایت کار آشوتوش گواریکر نے بنائی تھی اور یہ باکس آفس پر بھی اتنی مقبول نہیں ہوئی جتنی اس کی توقع کی جا رہی تھی۔

Read Comments