لاہور:گزشتہ کافی عرصے سے پاک بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی کا اثر دونوں ممالک کی ثقافتی پالیسی کے علاوہ شوبز کے حلقوں پر بھی پڑا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کیمپ میں حملے کے بعدبھارتی انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستانی فنکاروں پر لگائی جانے والی پابندی کیخلاف دونوں اطراف کے اداکاروں کے مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں ،کچھ اس پابندی کے حق میں اور کچھ خلاف۔
پاکستان کے معروف گلوکار شفقت امانت علی نے بھی حال ہی میں اس کشیدگی کیخلاف بیان دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آرٹ اور کلچر کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے۔
شفقت نے بہت سی بھارتی فلموں کیلئے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے،انہوں نے خط میں اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے،خط میں انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا بھارتی عوام نصرت فتح علی خان اور عابدہ پروین کو پسند کرنا چھوڑ دیں گے اور کیا پاکستانی عوام لتا منگیشکر کو سننا چھوڑ دیں گے؟
انہوں نے مزید لکھا کہ ہماری موسیقی،آرٹ،ثقافت،زبان،لباس،عادات تقریباً ہر چیز ایک جیسی ہے۔
کیا ہم کبیر ،غالب،مومن،داغ،فراق، رابندرا ناتھ ٹیگور،پنڈت جسراج ،اوم کار ناتھ ٹھاکر،بڑے غلام علی خان کو چھوڑ سکتے ہیں؟بالکل اسی طرح بھارتی عوام بابا فرید،بھلے شاہ ،شاہ حسین،وارث شاہ،سلطان باہو ، فیض احمد فیض ،احمد فرازاور انتظار حسین کو بھلا سکتے ہیں؟
کیا ہمارے ثقافتی ورثے 'موہن جو داڑو،ٹیکسلا اور وادی سندھ کی تہذیب وغیرہ ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔'
انہوں نے مزید لکھا کہ سیاستدان ہمیشہ لڑائی جھگڑا کرنے کی وجہ تلاش کرتے ہیں ،لیکن ایک عام آدمی ان چیزوں سے بہت دور ہے،وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے،ہمارے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ دونوں طرف امن اور محبت قائم رکھنے کیلئے کوششیں جاری رکھیں۔
انہوں نے بر صغیر کے لوگوں سے اس شعر کے ذریعے ایک درخواست کی ہے
"ایک شجر ایسامحبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے"
'ان کا یہ کھلا خط بھارتی ویب سائٹ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا تھا۔'