'ماہرہ،فواد،راحت اچھے تھےتب ہی تو بھارتی انہیں لے گئے'
پاکستان میں بولی وڈ فلموں کی نمائش میں حائل رکاوٹیں دور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی سینما گھر اجاڑ پڑے ہیں۔ پاکستان کے وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے وزیرِ مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے جو انڈین فلموں کی پاکستانی سینما گھروں میں نمائش کے معاملے کا جائزہ لے گی، اس طرح پاکستان میں اجاڑ سینما گھروں کی بحالی کی امید تو بنی ہے تاہم اب بھی دلی دور ہے۔ بدھ کو وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی جانب سے قائم کمیٹی کا اجلاس ہوا تو مگر بے نتیجہ رہا جس میں صرف یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس سلسلے میں فلمی صنعت سے منسلک تمام افراد سے فرداً فرداً رائے لی جائے گی۔ اس سلسلے میں یہ کمیٹی ڈسٹری بیوٹرز اور ایگزیبٹرز کے ساتھ جمعرات کو ملاقات کررہی ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں واقع اُڑی کیمپ پر ہونے والے حملے کے دو ہفتے بعد انڈین موشن پکچرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں کے انڈیا میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی تھی جس کے جواب میں پاکستان میں سینما مالکان نے اپنے طور پر انڈین فلموں کی نمائش روک دی تھی۔ یہ خود ساختہ پابندی دسمبر میں اٹھا لی گئی مگر اب تک کوئی بھی نئی انڈین فلم پاکستانی سینما کی زینت نہیں بن سکی۔ پاکستان میں ایٹریم سینما کے مالک اور فلم ڈسٹری بیوٹر ندیم مانڈوی والا نے اس ضمن میں بی بی سی کو بتایا کہ اصل رکاوٹ اگست 2016 میں سپریم کورٹ کی جانب سے کیا جانے والا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت ممنوعہ اشیاء کی درآمد کا خصوصی اجازت نامہ (این او سی) جاری کرنے کا اختیار وزارتِ تجارت سے لے کر کابینہ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے عدالتِ عظمٰی میں ایک اپیل بھی کی تھی تاہم وہ مسترد کر دی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں 1965 سے انڈین فلموں کی درآمد پر پابندی عائد ہے اور انڈین فلمیں پاکستان میں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شمار ہوتی ہیں۔ سال2007 میں حکومت نے ایک پالیسی بنائی تھی جس کے تحت انڈین فلموں کی محدود تعداد کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی استثنیٰ یا این او سی جاری کیا جاتا تھا جس کے بعد وہ فلم پاکستان میں درآمد کی جاتی تھی اور پھر اسے سینسر بورڈ منظور کرتا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزارتِ تجارت کے پاس اب استثنیٰ یا این او سی جاری کرنے کا اختیار نہیں رہا ہے اور تب سے یہ معاملہ اسی طرح لٹکا ہوا ہے کہ اس بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اس سے پہلے انڈین فلموں کو وزارتِ تجارت، وزارتِ اطلاعات و نشریات کی سفارش پر استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ یا این او سی جاری کیا کرتی تھی۔ ترمیم کے بعد اب وزیرِاعظم انڈین فلموں کی درآمد کی اجازت دے سکتے ہیں۔ ندیم مانڈوی والا نے بتایا کہ فلم میں کیا دکھایا جا سکتا ہے اور کیا نہیں یہ سینسر بورڈ کا کام ہے اور اس سلسلے میں کوئی تحریری ضابطہ موجود نہیں ہوتا۔ دوسری جانب پاکستانی اداکار شان نے اس کمیٹی کے قیام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی وزیرِاعظم سے گزارش ہے کہ وہ انڈیا میں پاکستانی فلموں کی نمائش کے لیے بھی کوئی کمیٹی قائم کریں۔ یہ بھی پڑھئے: معروف اداکار شان کی وزیر اعظم سے اپیل انہوں نے اپنے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ پر مزید لکھا کہ اگر انڈین فلموں کی اجازت دی ہے تو پھر انڈیا میں بننے والی گاڑیوں کی اجازت بھی دے دیں تاکہ ہونڈا، ٹویوٹا اور سوزوکی کی اجارہ داری ختم کی جا سکے۔ اس بارے میں پاکستان کے سب سے بڑے اور قدیم ڈسٹری بیوٹر ایور ریڈی کے چیئرمین ستیش آنند کا کہنا ہے کہ شان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک خالص کاروباری معاملہ ہے اور حکومت کسی ملک میں کوئی فلم نہیں چلوا سکتی۔ انھوں نے کہ ہالی وُڈ کی فلمیں پاکستان میں لگتی ہیں تو کیا ہم وہاں پاکستانی فلمیں لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "اچھی چیز کوئی نہیں چھوڑتا، عاطف اسلم ، ماہرہ خان ، فواد خان اور راحت فتح علی خان اچھے تھے تو انھیں ہندوستان کے لوگ آ کر وہاں لے گئے۔" ان کا کہنا تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب پاکستانی فلمیں اس معیار کی بنیں گی کہ وہ انڈیا میں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی مگر اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ دوسری جانب وزیرِاعظم کی جانب سے قائم کمیٹی کے اراکین سے فرداً فرداً رابطہ کرکے ان کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر تمام افراد نے اس سلسلے میں کوئی بیان دینے سے فی الحال معذرت کر لی۔ بشکریہ:بی بی سی اردو