Aaj News

پیر, مئ 20, 2024  
12 Dhul-Qadah 1445  
Live
Politics June 6 2023

شہباز گل کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری، عدالت نے دو آپشن دے دیے

عدالت نے استفسار کیا گل صاحب کب آرہے ہیں؟
اپ ڈیٹ 06 جون 2023 01:20pm
22 اگست 2022: اسلام آباد میں عدالت میں پیشی کے بعد پولیس افسران نیلی قمیض میں ملبوس سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی معاون، شہباز گل کو لئے جا رہے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)
22 اگست 2022: اسلام آباد میں عدالت میں پیشی کے بعد پولیس افسران نیلی قمیض میں ملبوس سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سیاسی معاون، شہباز گل کو لئے جا رہے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سرکاری اداروں کے خلاف بغاوت پر اُکسانے کے کیس میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

گزشتہ سماعت پر پراسیکیوٹر نے شہباز گِل کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج طاہرعباس سپرا نے کہا کہ ملزم کے پاس دو آپشن ہیں، ملزم اگر عدالت کے روبرو پیش ہوجائے تو وارنٹ منسوخ ہوجائیں گے، دوسرا یہ کہ ملزم کی جانب سے اگر آرڈر کو چیلنج کیا جائے۔

عدالت نے استفسار کیا گل صاحب کب آرہے ہیں؟

جس پر شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ شہباز گل کی اہلیہ کی سرجری ہونی ہے ابھی کنفرم نہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت 26 جون تک سماعت ملتوی کردی۔

پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا

اب بھی انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہے، شاہ محمود قریشی
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی۔ فوٹو — فائل
پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی۔ فوٹو — فائل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی کو اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کی جانب سے رہائی کا تحریری حکم نامہ جاری ہونے پر شاہ محمود قریشی کو رہا کیا گیا۔

رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی کا حصہ رہنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں ہے، بدھ کو پارٹی چیئرمین سے ملنے لاہور جارہا ہوں، ان سے رہنمائی لوں گا، آج بھی کارکنان جیلوں میں ہیں، آزمائش کا وقت ہے، ہر غروب کے بعد طلوع بھی ہوتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے فیملی اور وکلاء ٹیم کا شکریہ ادار کرتے ہوئے کہا کہ میری اہلیہ بیمار اور اسپتال میں تھیں لیکن مجھے اسلام آباد آنا پڑا، اہلیہ نے کہا آپ جائیں ہماری فکر نہ کریں، قید تنہائی میں کس کو اکسا سکتا تھا؟

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف سے کارکنوں کو کہتا ہوں آزمائش کا وقت ہے، حوصلے میں رہیں، ہمت نہ ہاریں، ہر غروب کے بعد طلوع بھی ہوتی ہے۔

شاہ محمود قریشی کی نظر بندی کا فیصلہ کالعدم قرار

قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے شاہ محمود قریشی کی نظر بندی کا حکم نامہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے شاہ محمود قریشی کو ایم پی او آرڈر کے تحت گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے کہا تھا کہ ہر چیز مذاق نہیں ہوتی، ماضی میں جو کچھ ہو چکا، اس کو چھوڑ دیں، مستقبل میں ایسا نہ ہو۔

شاہ محمود قریشی کی جانب سے ان کے وکلاء نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے تھری ایم او کے تحت جاری نوٹیفکیشن کوعدالت عالیہ میں چیلنج کرتے ہوئے فوری رہائی کی استدعا کی تھی جس پرعدالت عالیہ نے پٹیشن میں فریقین سے جواب طلب کیا تھا۔

منگل کے روزسماعت کے موقع پرلاء آفیسر نے سرکار کی جانب سے پیروی کرتے ہوئے جواب داخل کروانے کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کردیا جبکہ لاء آفیسر کو حکومت سے پوچھ کرجواب دینے کی ہداہت کردی۔

عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف اگرکوئی ثبوت ہے تو عدالت میں پیش کریں۔

دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات جمع کرائی گئیں۔

عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خلاف پنجاب میں مجموعی طور پر 9 مقدمات درج ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف ملتان میں 5 جبکہ لاہور میں 4 مقدمات درج کرائے گئے ہیں۔

جسٹس علی باقر شاہ محمود قریشی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی کے لئے درخواست کی سماعت کچھ دیر بعد کریں گے۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران عدالت کا کہنا تھا کہ بتایا جائے شاہ محمود قریشی کے خلاف کتنے مقدمات درج ہیں، درخواست گزار کا پتہ اسلام آباد کا اور شاہ محمود قریشی کا تعلق ملتان سے ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نظربندی کا معاملہ راولپنڈی انتظامیہ نے جاری کیا تو درخواست لاہور میں کیوں دائر کی گئی۔

وکیل کا مؤقف سننے کے بعد عدالت عالیہ نے شاہ محمود قریشی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات آج طلب کی تھیں۔

لاہور ہائیکورٹ کا پرویز الہیٰ کو جیل میں سہولیات فراہم کرنے کا حکم

جیل میں پرویز الہٰی کو ان کے اسٹیٹس کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں، درخواست
شائع 06 جون 2023 11:36am
چوہدری پرویز الہیٰ لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر۔
چوہدری پرویز الہیٰ لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر۔

لاہور ہائی کورٹ میں پرویز الہیٰ کو جیل میں سہولیات فراہمی کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے سپرنٹینڈنٹ کیمپ جیل کو سابق وزیراعلیٰ کو سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا۔

جسٹس وحید خان نے پرویز الہٰی کے بیٹے راسخ الہیٰ کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی طرف سے آصف چیمہ ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پرویز الہٰی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سینئر سیاستدان ہیں، پولیس نے پرویز الہٰی کو جھوٹے کیس گرفتار کرکے جیل منتقل کیا، جیل میں پرویز الہٰی کو ان کے اسٹیٹس کے مطابق سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ پرویز الہٰی کو پرہیزی کھانا، ادویات و دیگر فراہم نہیں کرنے دی جارہیں، عدالت جیل میں پرویز الہٰی کو سہولیات فراہم کرنے کا حکم جاری کرے۔

عدالت نے سپرنٹینڈنٹ کیمپ جیل کو سابق وزیراعلیٰ کو سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

ظل شاہ قتل کیس: عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کنفرم کردی

قابل ضمانت مقدمے میں ضمانت کیسے روک لوں، عدالت کا سرکاری وکیل سے مکالمہ
شائع 06 جون 2023 11:30am
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

لاہور ہائی کورٹ نے ظل شاہ قتل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت کنفرم کردی ہے۔

ظل شاہ قتل کیس میں چئیرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت میں توسیع کے کیس کی سماعت ہوئی جس میں عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے کہا کہ چئیرمین پی ٹی آئی شامل تفتیش ہوگئے ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ کون کون سی دفعات کے تحت درخواستگزار کے خلاف مقدمہ ہے۔

عدالت نے کہا کہ جو دفعات شامل کی گئیں ہیں وہ قابل ضمانت ہیں یا نہیں، اس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ جن مقدمات کے تحت درخواست گزار کا نام مقدمے میں شامل کیا گیا وہ قابل ضمانت ہیں۔

سرکاری وکیل نے مقدمے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر کی تبدیلی کی وجہ سے تفتیش مکمل نہیں ہو سکی۔

سماعت کے دوران عدالتی حکم پر شریک ملزم کابیان عدالت میں پڑھ کر سنایا گیا۔ عدالت نے کہا کہ 3 پراسیکیوٹر کھڑے ہیں، قابل ضمانت مقدمے میں ضمانت کیسے روک لوں، جو ایف آئی آر پڑھی اس سے ملزم کا کیا تعلق بنتا ہے۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی عبوری ضمانت کنفرم کرتے ہوئے انہیں ایک لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

آڈیو لیکس کمیشن : ’پہلے آڈیوز پرججز کی تضحیک کی، پھرسچے ہونے کی تحقیق کروالی‘

ججز پر اعتراض والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اپ ڈیٹ 06 جون 2023 03:49pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

پانچ رکنی لارجر بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کئے جاچکے ہیں۔

’جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا‘

دورانِ سماعت حنیف راہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ میری توہین عدالت کی درخواست پر نمبر نہیں لگا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے، آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا، ججز کسی صورت پارٹی نہیں بن سکتے۔

خیال رہے کہ حکومت کی طرف سے بینچ کی تشکیل پراعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آڈیو لیکس کا معاملہ چیف جسٹس سمیت بینچ میں موجود کچھ ججز سے متعلق ہے، لہٰذا چیف جسٹس اور دیگر دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اخت بینچ سے الگ ہو جائیں۔

لارجر بینچ حکومت کے اِن اعتراضات کو بھی سنے گا۔

درخواست گزاروں میں سے ایک حنیف راہی نے سپریم کورٹ کے حکم امتناع کے باوجود جوڈیشل کمیشن ارکان کی جانب سے کارروائی جاری رکھنے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست بھی دائر کی ہے۔

’چیف جسٹس کے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں ہوسکتے‘

اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آٸے اور گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے ان سے پوچھا آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟

انہوں نے مزید کہا کہ آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ایک آٸینی عہدہ ہے، چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا، چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ ان نکات پر آپ دلائل دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں ہوسکتے، کیس میں الزام کیا ہے یہ معلوم نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جارہے ہیں کہ ہم میں سے تین متنازع ہیں؟ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا، میں چاہوں گا آپ زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پڑھ کر بھی سنائے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لیک آڈیوز میں سے ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظرم میں درست ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملہ پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے اسفتسار کیا کہ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سینئر کابینہ ممبر نے اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ آڈیوز پر پریس کانفرنس کرچکے؟ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں۔ کیا درست ہے جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتا وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے، میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں۔

جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ وزیرداخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی؟ کیا ایسی لاپرواہی برتی جاسکتی ہے؟ ایسے بیان کے بعد تو وزیر کو ہٹادیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرےعلم میں نہیں اگر کسی نے کوئی پریس کانفرنس کی۔ عدالت یہ دیکھے وزیر داخلہ کا بیان 19 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات ہے، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا، اتنے اہم ایشو پر کابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ واہ کیا طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی، پھر سچے ہونے کی تحقیق کروالی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو آسان ہوجائے گا، کسی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو آڈیو بنادو۔

جسٹس منیب نے مزید کہا کہ کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔

جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔ کالز کیسے ریکارڈ کی گٸیں کمیشن میں جاٸزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کےعلاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ وزیرخزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟

اٹرانی جنرل نے کہا کہ ہماری اس سارے معاملہ پر کوئی بدنیتی نہیں، استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیرِ غور لائیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے، جائزہ لے لیں۔

جس کے بعد بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔

’حکومت مدعی ہے اور خود ہی بینچ تشکیل دینا چاہتی ہے‘

اٹارنی جنرل کے بعد درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل شروع کئے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں، ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آئیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ آڈیو ریکارڈنگز کس نے کی؟

شعیب شاہین نے کہا کہ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعہ منظر عام پر لائی گئیں، اٹارنی جنرل جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ تو اقلیتی رائے تھی۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ اگر کسی پر اعتراض ہو تو بھی اس جج پر کیس سننے کی ممانعت نہیں، حکومت مدعی ہے اور خود ہی بینچ تشکیل دینا چاہتی ہے۔

ججز پر اعتراض کرنے والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس سمیت تین ججز پر اعتراض کرنے والی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آڈیو لیکس کیس میں ہم نے تمام فریقین کو سن لیا ہے، ہم اس درخواست پر سوچ بچار کریں گے۔

سماعت ملتوی

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

لارجر بنچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے خلاف دائر وفاقی حکومت کی آئینی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے ملتوی کردی۔

انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستیں

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، صدر و سیکریٹری سپریم کورٹ بار اور ایڈووکیٹ حنیف راہی نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

آخری سماعت کا حکم نامہ

سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس کی آخری سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے پانچ رکنی لارجر بنچ پر اعتراض کردیا ہے ( جس پر آج دلائل سنے جانےکی توقع ہے)، ججز کے خلاف وفاق نے تحریری درخواست بھی دے دی ہے، رجسٹرار آفس وفاقی حکومت کی درخواست کو رجسٹرڈ کرے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے جواب پر فریقین جواب جمع کرا سکتے ہیں۔

گزشتہ سماعتوں کا پس منظر

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی عدلیہ یا ججز سے منسوب آڈیوز سامنے آئی تھیں۔

اکیس مئی کو وفاقی حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا، جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کمیشن کے ارکان میں شامل ہیں۔

پچیس مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست 26 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

چھبیس مئی کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے، جبکہ 30 مئی کو وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے نیا بینچ تشکیل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

عدالت کیلئے کے الیکٹرک نجکاری کی گہرائی میں جانا ممکن نہیں، چیف جسٹس

جماعت اسلامی نجکاری کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھائے، عدالت نے درخواست نمٹا دی
اپ ڈیٹ 06 جون 2023 11:37am
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال۔ فوٹو — فائل
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال۔ فوٹو — فائل

کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ عدالت کے لئے ممکن نہیں کہ کے الیکٹرک نجکاری کی گہرائی میں جائے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کے الیکٹرک نجکاری کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے جماعت اسلامی کی معاملہ متعلقہ فورم (پارلیمنٹ) پراٹھانے کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے کے الیکٹرک نجکاری کے خلاف درخواست نمٹا دی۔

چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے لئے ممکن نہیں کہ کے الیکڑک نجکاری کی گہرائی میں جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے کیسسز میں ماضی میں بہت ساری چیزیں ہوئی، جماعت اسلامی ہمارے لیے قابل احترام ہے تاہم نجکاری کا ایشو پارلیمنٹ میں اٹھائیں، یہ درخواست حکومت کی معاشی پالیسی کے خلاف ہے۔

وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ پارلیمنٹ ناکام ہو جائے تو پھر عدلیہ کا آپشن باقی رہ جاتا ہے، جس پرعدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ ناکام ہوگئی ایسا نہ کہیں، جب پارلیمنٹ کا احترام نہیں ہوگا تو کیا پارلیمنٹ ناکام نہیں ہوگی؟ پارلیمنٹ کا احترام کریں۔

اس موقع پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ٹیرف کا تعین کرنا نیپرا کا کام ہے، عدالت کیسے کے الیکٹرک کی نجکاری کو منسوخ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عوامی مسائل حل نہ ہونے کی ہی وجہ سے نجکاری کا عمل کیا گیا، اس مرحلے پر تفصیل میں جانا مشکل ہے، اگر سپریم کورٹ نے اکنامک ایشوز سے دور رہنے کا لکھ دیا تو دوسرے فورمز بھی یہ کہیں گے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ بہتر ہے اس درخواست کو واپس لے کر متعقلہ فورم پر جائیں، جماعت اسلامی کی سیاسی ہم آہنگی کے کردار کو سراہتے ہیں لیکن موجودہ کیس میں ہم نہیں جانا چاہتے۔

کیس کی گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ معاشی معاملات میں ہمیں مہارت نہیں، لہٰذا اس میں مداخلت نہیں کریں گے، اسی لئے آپ چاہیں تو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما چوہدری ثقلین رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار

چوہدری ثقلین کیخلاف روڈ بلاک کرنے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج تھا، پولیس
شائع 06 جون 2023 09:29am
PTI leader Chaudhry Saqlain re-arrested after release - Aaj News

جہلم میں پی ٹی آئی رہنما چوہدری ثقلین کو رہائی کے بعد جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔

چوہدری ثقلین کو عدالتی احکامات پر رہا کیا تو پولیس نے فوری طور پر جیل کے باہر سے انہیں حراست میں لے لیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنما کو تھانہ سوہاوہ میں درج مقدمے میں گرفتار کیا ہے، ان کے خلاف 11 مئی کو روڈ بلاک کرنے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج تھا۔