اصل دولت مندی
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جس کے پاس کروڑوں روپے ہوں ، وہی امیر ہوتا ہے۔ بھاری بینک بیلنس ، نئے ماڈل کی بہت سی کاریں، بنگلے اور بہت سے نوکر چاکر، اور جائیدادیں دولت مندی کی نشانی سمجھی جاتی ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، روپیہ پیسہ ہی دولت مندی نہیں ۔ اصل دولت مند وہ ہے ، جس کا دل غنی ہو۔ وہ لوگوں سے بے نیاز ہو اور نہ اُن سے توقعات رکھتا ہو اور نہ ہی اپنی ضروریات کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہو۔
میری باتوں کو سن کر شاید آپ یہ سوچیں کہ یہ کیا بات ہوئی، دولت مند تو دراصل دولت والا ہوتا ہے لیکن تھوڑی سی دیر رک کر میری بات پرغور کریں ۔ روپے پیسے واقعی دولت مندی کی نشانی ہیں لیکن خوشی کی ضمانت نہیں۔ اس منزل تک پہنچنے سے قبل ہمیں خود کو دریافت کرنا ہوگا، اپنے اندر کو کھنگالنا ہوگا کیونکہ سب کچھ ہمارے اندر ہی ہے۔ یعنی خواہشیں ، دکھ سکھ اور صحت مندی سب کچھ ہمارے اندر ہی ہے۔ ہر ایک کی خواہشیں جدا جدا ہیں، کسی کی زندگی کا مقصد امیر بننا ہے تو کسی کی زندگی کا دارومدار اپنی من پسند لڑکی سے شادی کرنا ہے۔
کوئی اپنے ملک میں روزگار حاصل کرکے اپنی مراد پاگیا تو کسی کی نظر میں خوشحالی ملک سے باہر ہی ہے اور کسی شدید بیمار سے پوچھیں تو وہ کہے گا کہ صرف صحت ہی اصل دولت۔ کوئی کثرت اولاد سے پریشان ہے تو بے اولاد افراد اپنی زندگی کو جہنم تصور کرتے ہیں۔ بعض بوڑھے والدین اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے زندگی سے عاجز ہیں تو بعض کی زندگیاں اپنی سعادت مند اولاد کی وجہ سے نکھر گئی اور سنور گئی ہیں۔جبکہ اہل دل بندوں کی نگاہ میں رسول اللہ ﷺ سے عشق اور اللہ ربّ العزت کی رضا ہی سب کچھ ہے۔ انہیں دولت سے کسی قسم کا لگاؤ نہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: گورکھ ہل: سندھ کا خوبصورت سیاحتی مقام
اسی طرح دولت مندوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں تو اطمینان وہاں بھی نہیں ۔ کوئی دنیا کی بہترین کاریں خریدنے کی فکر میں ہے۔ کوئی اپنے بنگلے کو فروخت کرکے اس سے دگنی چوگنی جگہ پر محل تعمیر کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ کوئی ایک فیکٹری سے دوسری اور کوئی دو ملوں سے چار بنانا اور کوئی اپنے کاروبار کو بیرون ملک وسعت دینے کی فکر میں ہے۔ کوئی سب کچھ حاصل کرنے کے بعد اپنی بیوی کی بے وفائی کی وجہ سے خودکشی کرلیتا ہے تو کسی کی اولاد اپنی کوئی خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ سے خودکشی کرتی ہے تو والدین کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے، جبکہ اُن کے پاس دنیا کی ہر شے ہے۔
آپ غور کریں، ہر انسان بہت سی خواہشیں اور بہت سی آرزوئیں رکھتا ہے اور بقول غالب ؏
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
انسانی اور نفسانی خواہشات کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھر سکے گی۔ لیکن دولت مندبننے اور زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے پہلے آپ کو اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں اورخواہشوں کی فہرست تیار کرنا ہوگی۔ یعنی خود کو دریافت کرنا ہوگا۔ میری بات کو شاید علامہ اقبال کے اس شعر سے سمجھنے میں مدد مل سکے۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی ؏
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
ایک اور مثال میرے موقف کی تائید کردے گی۔ کیونکہ چاہے کتنی اچھی بات کیوں نہ کہی جائے، جب تک اس پر مغرب کی مہر ِتصدیق ثبت نہ ہو تو وہ معتبر نہیں سمجھی جاتی۔ لندن میں ایک حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مال و دولت کے مقابلے میں اچھی صحت اور اچھا شریکِ زندگی لوگوں کی زندگیوں میں زیادہ خوشیاں بھر دیتا ہے۔لندن اسکول آف اکنامکس کی اس تحقیق میں دو لاکھ لوگوں کی زندگیوں پر مرتب ہونے والے مختلف حالات کا جائزہ لیا گیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ڈپریشن یا بےچینی کی بیماری لوگوں کی خوشیوں کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے، جبکہ اچھے شریکِ حیات کی وجہ سے سب سے زیادہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔
تحقیق کے شریک منصف پروفیسر رچرڈ لیئرڈ کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے 'ریاست کا نیا کردار سامنے آتا ہے'۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کی خوشی میں نیا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ دولت پیدا کرنے سے زیادہ خوشی پیدا کرنے پر زور دے۔
یہ تحقیق دنیا بھر میں کیے جانے والے رائے عامہ کے متعدد بین الاقوامی جائزوں پر مشتمل ہے۔ سائنسدانوں کے جائزے کے مطابق لوگوں آمدنی کے دگنا ہونے پر اتنے خوش نہیں ہوتے، جتنا اچھے شریک زندگی کے ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ دولت ملنے سے ان کی ہوس اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ شریک حیات کی موت یا علیحدگی لوگوں کے دکھوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بیروزگاری بھی لوگوں کی زندگیوں میں پریشانی لے کر آتی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی تعلقات اور ذہنی اور جسمانی صحت بھی دکھوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔
تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر رچرڈ لیئرڈ کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کی خوشی میں نیا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ دولت پیدا کرنے سے زیادہ خوشی پیدا کرنے پر زور دے۔
ان معاملات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ غور وفکر سے نت نئی راہیں کھلتی ہیں ۔ اگر آپ سچی خوشی کے موضوع پر غور کریں اور اپنی صلاحیتوں اور خواہشوں کی فہرست تیار کریں گے تو آپ پر نت نئے انکشافات ہوں گے ۔ جن کے نتیجے میں آپ کو اپنی زندگی کا رخ متعین کرنے اور ترجیحات تیار کرنے میں مدد مل سکے گی۔ ہر فرد کو بامقصد زندگی گزارنا چاہئے۔ صرف کھانا پینا، شادی کرنا اوربچے پیدا کرناہی زندگی نہیں۔ یہ کام تو جانور بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کاموں کے ساتھ ساتھ بامقصد زندگی گزارنے کی ہر ایک کو پلاننگ کرنا چاہئے ۔ پڑھے لکھے لوگوں کو لکھ کر اور ان پڑھ لوگوں کو زبانی یہ کام کرنا چاہئے۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس امر کو دی جائے کہ کون سی چیز خوشیاں دے سکتی ہے۔ خاص طور پر آپ کی زندگی میں۔ کیونکہ صرف دولت کا حصول خوشیوں کی ضمانت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed on this story.