Aaj News

اتوار, مئ 19, 2024  
11 Dhul-Qadah 1445  

افغانستان: طالبان کا جرم پر سخت سزاوں کا نظام نافذ کرنے کا عندیہ

طالبان نے ملک میں جرم پر سزاوں کا نظام نافذ کرنے کا عندیہ دے...
اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2021 08:39pm

طالبان نے ملک میں جرم پر سخت سزاوں کا نظام نافذ کرنے کا عندیہ دے دیا۔سینئر طالبان رہنما نے کہا ہے کہ ملک میں سخت سزائیں دینے کا نظام نافذ کیا جائیگا۔

ملا نور الدین طرابی کا شمار طالبان کے بانی رہنماوں میں ہوتا ہے ،ا ب انہوں نے امریکی خبررساں ادارے اے پی کو ایک انٹرویو دیا ہے ۔

انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ طالبان دورے حکومت میں جرم پر دوبارہ سخت سزائیں اور ہاتھ کاٹیں جائینگے تاہم اب یہ سزائیں عوام کے سامنے نہیں دی جائیں گی۔

نور الدین طرابی نے ماضی میں طالبان کی سزاوں پر پائے جانے والے عالمی برادری کے تحفظات کو مسترد کردیا اور خبردار کیا کہ دنیا افغانستان میں نئی حکومت کے قوانین کے نفاذ میں مداخلت سے گریز کرے۔

نور الدین طرابی کاکہنا تھا کہ ہم پر اسٹیڈیم میں سزائیں دینے پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن کبھی طالبان نے کسی دوسرے ملک کے قانون اور سزاوں پر بات نہیں کی ۔

طالبان رہنما نورالدین طرابی کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اور وہ طالبان کے سابقہ حکومت کے دور میں وزیر امور انصاف کے عہدے پر فائز تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ججز میں خواتین بھی شامل ہونگی جوکہ کیسز سنیں گی تاہم افغانستان میں قوانین کی بنیاد صرف قرآن ہی ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سزاوں سے متعلق جائزہ لیاجارہا ہے کہ ان کو عوام کے سامنے دیا جائے یہ اس حوالے سے پالیسی مرتب کی جائے، تاہم انہوں نے چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کو تحفظ کیلئے ضروری قرار دیا۔

طالبان کے سابقہ دورے حکومت میں جرائم پر مجرموں کو سخت سزا دی جاتی رہی ہے اور یہ سزا عام طور پر میدان میں سینکڑوں افغان باشندوں کے سامنے دی جاتی تھی۔ تاہم دنیا بھر میں اس پر مذمت کی جاتی رہی تھی ۔

طالبان دورے حکومت میں قتل پر مجرم کو سر میں گولی ماری جاتی تھی اور یہ گولی مقتول کی فیملی کا فرد مارتا تھا ، جبکہ مقتول کی فیملی کے پاس خون بہا قبول کرنے کا آپشن بھی موجود ہوتا اگر وہ اس کو قبول کرلیتا تو مجرم کو معاف کردیا جاتا اور اسکو پھر زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا۔

چوری پر ہاتھ کا کاٹنا اور کسی بھی شاہراہ پر لوٹنے پر ہاتھ اور پاوں کاٹ دینے کی سزا سابقہ طالبان دورے حکومت میں رائج تھی۔

Source: AP