Aaj News

بدھ, مئ 29, 2024  
20 Dhul-Qadah 1445  

ہندوستان میں برطانوی راج کی لوٹ مار کی حیران کن تفصیلات اِفشا

شاہی خاندان کے بیش قیمت زیورات کی حقیقت
شائع 07 اپريل 2023 11:42am

برطانوی شاہی خاندان کے بیش قیمت زیورات اہم تقریبات کے مواقع پرسبھی کی آنکھیں خیرہ کرتے ہیں ، لیکن یہ انمول خزانہ درحقیقت برصٖغیر پرحکمرانی کے دوران مختلف طریقوں سے لوٹ کراپنے ملک منتقل کرنے کا نتیجہ ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ میں شاہی خزانے کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔

برطانوی اخبار گارڈین نے انڈیا آفس کے آرکائیوز میں 46 صفحات پر مشتمل ایک قابل ذکر فائل کا پردہ فاش کیا ہے، سرکاری محکمہ جو برصغیر پاک و ہند پر برطانیہ کی حکمرانی کا ذمہ دار تھا اس کے تحت تحقیقات کی یہ تفصیل ملکہ الزبتھ دوم کی دادی کوئین میری کے شاہی زیورات سے متعلق ہے۔

سال 1912 میں تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح چارلس کے زمرد جڑے بیلٹ سمیت بیش قیمت زیورات ہندوستان سےبطور ’فتح کے اعزاز‘ کے نکال کربعد ازاں ملکہ وکٹوریہ کو دیے گئے۔یہ اشیاء اب بادشاہ کی ملکیت ہیں۔

 مہاراجہ شیرسنگھ کا زمرد جڑا کمر بند 1840 ، تصویر: رائل کلیکشن

سونے کا 19 زمرد جڑا کمر بند بکنگھم پیلس نے 5سال قبل موسم گرما میں اس وقت کے شہزادہ چارلس کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر رائل کلیکشن سے ان کی پسندیدہ چیزوں سے متعلق ایک نمائش میں رکھا تھا ، اسے ہندوستانی مہاراجہ نے اپنے گھوڑوں کو سجانے کے لیے استعمال کیا تھا۔

سال 1837 میں شمالی ہندوستان پنجاب میں سوسائٹی ڈائرسٹ فینی ایڈن اور اس کے بھائی جارج، جو اس وقت برطانوی راج کے گورنر جنرل تھے، لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ سے ملاقات کی جس نے چھ سال قبل انگریزوں کے ساتھ ”دوستی کا معاہدہ“ کیا تھا۔

ایڈن نے اپنے جریدے میں لکھا کہ آدھے نابینا رنجیت سنگھ نے کچھ قیمتی پتھر پہن رکھے تھے،مہاراجہ کے پاس جواہرات اتنے زیادہ تھے کہ “وہ اپنے گھوڑوں کو بھی بہترین جواہرات سے سجاتا اور ان کی رہائش گاہوں کی شان و شوکت آپ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ ایڈن نے بعد ازاں لکھا، ”اگر کبھی ہمیں اس بادشاہت کو لوٹنے کی اجازت دی گئی تو میں سیدھا ان کے اصطبل میں جاؤں گا“۔

بارہ سال بعد رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور وارث، دلیپ کو پنجاب پر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فاتح افواج کے ساتھ دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ فتح کے حصے کے طور پر کمپنی نے حقیقتاً گھوڑوں کے زمرد جڑے کمر بند کے ساتھ ساتھ مہاراجہ کا سب سے قیمتی پتھر ’عظیم کوہ نور‘ ہیرا بھی لوٹ لیا۔

 ملکہ کی ماں کا تاج 2002 میں ان کی آخری رسومات کے دوران تابوت کے اوپررکھا گیا ہے: تصویر/ڈین چنگ/دی گارڈین

آج، کوہ نور لندن کے ٹاور میں نمائش کے لیے ملکہ الزبتھ دوم کی والدہ کے تاج میں جڑا ہے اوربرطانوی سامراجی تاریخ کے ساتھ جڑے اذیت ناک تعلقات کی علامت بن چکا ہے۔

اس ہیرے پر ’کوہ نور‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والی مورخ اور صحافی انیتا آنندکے مطابق، “ یہ راج کے دوران برطانوی بالادستی کی ایک خوبصورت اور سرد یاد دلاتا ہے“، 1858 اور 1947 کے درمیان کا دور جب ہندوستان پراس تاج کی حکمرانی تھی۔

انیتا نے لکھا، ’اس کے پہلو ایک بوائے کنگ کی قسمت کی عکاسی کرتے ہیں جسے اپنی ماں سے الگ کر دیا گیا تھا، پتھر بھی اپنے گھر سے بہت دور لے جایا گیا، دوبارہ کاٹا گیا اورحجم میں کم کر دیا گیا۔‘

بکنگھم پیلس لوٹے گئے نوادرات کی حساسیت سے متعلق واضح طور پر آگاہ ہے۔ ہندوستانی حکومت کی طرف سے یہ بتانے کے بعد کہ چارلس کی تاجپوشی کے موقع پر ان کی اہلیہ کمیلا کے کوہ نور پہننے سے ”نوآبادیاتی ماضی کی تکلیف دہ یادیں“ تازہ ہو جائیں گی،شاہی محل کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اسے کم متنازع ہیرے سے تبدیل کردیں گی۔

لیکن کوہ نور وہ واحد جواہر نہیں تھا جو رنجیت سنگھ کے خزانے سے لوٹ کربرطانوی بادشاہت تک پہنچا۔

شاہی خزانے میں موتیوں کا ہار

گارڈین کو ملنے والی دستاویز میں جن زیورات کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ”چار بہت بڑے یاقوت کا ایک چھوٹا ہار“ بھی شامل ہے، جن میں سے سب سے بڑا 325.5 قیراط کا یاقوت ہے جسے بعد ازاں ’تیمور روبی‘ کے نام سے شناخت کیا گیا۔

تاہم 1996 میں سوسن سٹرونج کی تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ شاید کبھی بھی منگول فاتح تیمور کی ملکیت میں نہیں تھا، یہ اسپائنل ہے، ایک سرخ پتھر جو روبی سے ملتا جلتا ہے، لیکن کیمیائی طور پر مختلف ہے۔

الزبتھ دوم کو 1969 کی بی بی سی کی دستاویزی فلم ’رائل فیملی‘ میں اسے سنبھالتے ہوئے دکھایا گیا تھا، اور وہ اس سے متعلق افسانوں سے واضح طور پر واقف تھیں۔ “یقیناً تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ اس ہار کا تعلق فارس کے بہت سے بادشاہوں اور مغل شہنشاہوں سے رہا، یہاں تک کہ ملکہ وکٹوریہ نے اسے ہندوستان سے بھجوا دیا۔

 تیمور روبی ہار، 1853۔ تصویر: رائل کلیکشن ٹرسٹ

ملکہ کی کوئی تصویر ایسی نہیں ہے جس میں انہیں یہ ہار پہنے دیکھاجاسکتا ہو، تاہم انہوں نے لاہور کے لوٹے گئے خزانوں میں سے کچھ اور پہنا ہو گا، جسے انڈیا آفس کی رپورٹ میں ”224 بڑے موتیوں پر مشتمل موتیوں کا ہار“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

شاہی زیورات سے متعلق تحقیقات میں 1987 مین لیسلی فیلڈ نے بیان کیا کہ ”ملکہ ماں کے سب سے متاثر کن دو قطاروں والے موتیوں کے ہاروں میں سے ایک 222 موتیوں سے بنا ہوا تھا جس میں ہیروں سے گھرے 2 یاقوت تھے جو اصل میں پنجاب کے حکمران کی ملکیت تھے“۔ -

 2012 میں رائل اوپیرا ہاؤس میں موتی پہنے ہوئے ملکہ۔ تصویر: اے ایف پی

سال 2012 میں ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے سلسلے میں لندن کے رائل اوپیرا ہاؤس میں ایک گالا فیسٹیول میں شرکت کی۔ جہاں کھینچی گئی تصاویرمیں انہیں روبی ہُک کے ساتھ ملٹی سٹرنگ موتیوں کا ہار پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔

کیا یہ موتی بھی رنجیت سنگھ کی ملکیت تھے؟ قیاس آرائیاں تھیں کہ ایساہی ہے تاہم بکنگھم پیلس کی جانب سے کسی بھی قسم کی تصدیق نہیں کی گئی۔

ایسا لگتا ہے کہ الزبتھ دوم کی دادی دلچسپی موتیوں سے متعلق تجسس کی وجہ سے تھی، انہیں اس کے حصول کے طریقے سے متعلق کوئی اخلاقی فکر نہیں تھی، تاہم بکنگھم پیلس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ غلامی اور نوآبادیات ایسے معاملات ہیں جنہیں وہ انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں سابق انڈرسیکریٹری تھے اور موجودہ رکن بھارتی پارلیمنٹ ششی تھرورکا اس معاملے پر کہنا ہے کہ ، ؛بالآخرہم ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جہاں نوآبادیاتی لوٹ مار کو تسلیم کیا جارہا ہے، بجائے اس کے کہ اسے کسی عظیم ’مہذب مشن‘ کے حادثاتی نقصان کے طور پر پیش کیا جائے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ، ’چوری شدہ جائیداد کی واپسی ہمیشہ اچھی چیز ہوتی ہے۔ آنے والی نسلیں حیران ہوں گی کہ مہذب قوموں کو صحیح کام کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟‘۔

India archive

colonial loot

royal jewellery collection

Queen Mary