Aaj News

جمعرات, مئ 16, 2024  
07 Dhul-Qadah 1445  

لاپتہ جرمن کوہ پیما کی لاش 37 سال بعد گلیشیئرپگھلنے سے مل گئی

ماحولیاتی تبدیلیوں سے پگھلنے والے گلیشیئرز سے گمشدہ چیزیں سامنے آرہی ہیں
شائع 29 جولائ 2023 11:40am
تصویر: سی این این
تصویر: سی این این

سوئٹزرلینڈ کے معروف گلیشیئر میترہارن کے قریب سےملنے والی انسانی باقیات میں سے ایک جرمن کوہ پیما کی باقیات بھی ہیں جو 1986 سے لاپتہ تھے۔

لاپتہ کوہ پیماؤں کی باقیات سے متعلق حقائق سامنے الپائن گلیشئرز پگھلنے سے سامنے آئے جو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سکڑ رہے ہیں۔

جرمن کوہ پیما کی لاش جولائی 2023 کے آغاز میں زرمت کے اوپر تھیوڈل گلیشیئرز کے قریب سے گزرنے والے کوہ پیماؤں کو نظرآئی تھی جن کی پہلی نظر ہائیکنگ کیلئے استعمال ہونے والے جوتے پر پڑی، پھرانہوں نے جوتے کے نیچے برف سے باہر نکلی کرمپن ڈیوائس دیکھی جو کوہ پیمائی میں رہنمائی کیلئے ایسےجوتوں کے نیچے لگی ہوتی ہے۔

ڈی این اے تجزیے سے علم ہوا کہ یہ لاش آج سے 37 سال قبل لاپتہ ہونے والے جرمن کوہ پیما کی ہے جس کی تلاش کیلئےاس وقت بڑے پیمانے پر سرچ اور ریسکیو آپریشن کیا گیا تھا ۔

جرمن کوہ پیما کا نام نہ بتاتے ہوئے پولیس نے بس اتنا کہا کہ گمشد گی کے وقت کوہ پیما کی عمر 38 سال تھی۔

واضح رہے کہ ایلپس کے تمام گلیشیئرز کی طرح تھیوڈُل گلیشیئرز بھی گشتہ کئی سال سے پگھلاؤ کا شکار ہے، جس سے اس کا حجم کم ہوا ہے۔ یہ گلیشیئر یورپ میں اسب سے بلند مقام زرمت اسکائی ریجن کا حصہ ہے۔

گلوبل وارمنگ سے الپائن کے گلیشیئرز سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیںتقریباً ہر موسم گرما میں برف کے پگھلنے سے کئی دہائیوں سے غائب کچھ نہ کچھ سامنے آجاتا ہے۔

گذشتہ سال الیسش گلشیئر س 1968 سے لاپتہ جہاز کا ملبہ ملا تھا۔ 2014 میں برطانوی کوہ پیما جوناتھن کانویل کی لاش ایک ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے اس وقت تک دیکھی جب وہ سوئٹزرلینڈ کی مشہور چوٹی میترہارن میں ایک پناہ گاہ تک ضروری سامان لے جا رہے تھے۔جوناتھن کانویل 1979 سے لاپتہ تھے۔

اسی طرح سے 2015 میں دو جاپانی کوہ پیماؤں کی لاشیں میترہارن گلیشیئرز کے ایک سرے سے ملیں۔ یہ دونوں 1970 میں برفانی طوفان کے دوران لاپتہ ہو ئے تھے۔

گذشتہ برس پگھلنے والی برف نے سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کے درمیان سرحد کو ہی بدل ڈالا۔ اب ’ڈرینج ڈیوائڈ‘ یعنی نکاسی آب کی تقسیم میں تبدیلی واقع ہو گئی ہے۔ مشہور رفیوجیو گائیڈ ڈیل کیروینو ایک اطالوی پہاڑی مقام ہے جسے سکائیرز اور ہایئکرز بہت پسند کرتے ہیں اب سوئٹزرلینڈ کی حدود میں چلا گیا ہے۔

اب اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان نئی سرحد کی حد بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پگھلنے والی برف کے نتائج سرحدوں پر سفارتی تنازعات یا طویل عرصے سے لاپتہ کوہ پیماؤں کی دریافت سے کہیں زیادہ بھیانک ہیں۔

الپائن گلیشیئرز یورپ کے ماحول کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موسم سرما کی برف جو وہ ذخیرہ کرتے ہیں وہ یورپی دریاؤں جیسے رائن اور ڈے نیوب کو بھر دیتے ہیں، جو فصلوں کے لیے پانی فراہم کرنے کا ذریعہ یا جوہری بجلی گھروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کام آتا ہے۔مگر اب صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔

رواں برس اور گذشتہ دونوں رائن میں پانی کی سطح بعض اوقات مال بردار جہازوں کے لیے بہت کم رہی جو ہالینڈ سے جرمنی کے راستے سوئٹزرلینڈ تک سامان لے جاتے ہیں۔ پگھلی ہوئی برف کا پانی دریاؤں کو بھی ٹھنڈا کرتا ہے۔ ٹھنڈک کے اثر کے بغیر پانی بہت گرم ہو جاتا ہے اور مچھلیاں مر جاتی ہیں۔

تقریباً ایک سال قبل سوئس گلیشیئر کے ماہرین برف کی سطح کطرناک حد تک کم ہوتا دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے کیونکہ1931 کے بعد سے گلیشیئرز اپنا نصف حجم کھو چکے ہیں۔ سائنسدانوں کی پیش گوئی سے کہیں زیادہ تیزی سے سکڑنے کا مطلب ہے کہ صدی کے آخر تک تقریباً تمام الپائن گلیشیئر ختم ہو جائیں گے۔

تاہم یہ گذشتہ موسم گرما تھا۔ رواں برس جون کا مہینہ سوئٹزرلینڈ کے لیے گرم ترین اور خشک ترین مہینہ تھا۔ جولائی کے پہلے تین ہفتے عالمی سطح پر اب تک کے گرم ترین ہفتے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔اگست اور ستمبر میں گلیشیر کے ماہرین دوبارہ برف کی پیمائش کر رہے ہوں گے اور وہ نئے ملنے والے ممکنہ نتائج سے خوف زدہ ہیں۔

Glaciers Melting

German Mountaineer