سانحہ نیپا: کراچی کے خراب انفرا اسٹرکچر کا ذمے دار کون؟

اب تعزیتی بیانات آئیں گے، ذمہ داران کا تعین ہوگا، سزائیں ہوگی، متعلقہ افسران معطل ہوں گے، غمزدہ خاندان کو تسلیاں اور تشفیاں دی جائیں گی۔
شائع 01 دسمبر 2025 06:47pm

کراچی کے علاقے گُلشن اقبال میں کھلے مین ہول میں گر کر ایک تین سالہ بچے کی موت معمولی حادثہ نہیں بلکہ سانحہ ہے۔ اب تعزیتی بیانات آئیں گے، ذمہ داران کا تعین ہوگا، متعلقہ افسران معطل ہوں گے، سزائیں ہوں گی، غمزدہ خاندان کو تسلیاں اور تشفیاں دی جائیں گی، ممکن ہے کچھ معاوضہ بھی ادا کردیا جائے لیکن سب حقیقتوں پر ایک حقیقت غالب رہے گی اور وہ یہ کہ ننھا ابراہیم اب واپس نہیں لوٹے گا۔

ننھے ابراہیم کی موت محض ایک حادثہ نہیں بلکہ کراچی کے بگڑتے شہری ڈھانچے اور اداروں کی مسلسل غفلت کا ثبوت ہے۔ اگر سنجیدہ اور مستقل اصلاحات نہ کی گئیں تو اس طرح کے سانحات آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

شہریوں کی جانوں کا تحفظ اور شہر کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ کیا حکام اب بھی جاگتے ہیں یا نہیں۔

شہر قائد میں کھلے مین ہول کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال یہ خطرہ کئی زندگیاں چھین لیتا ہے۔ بعض اوقات ڈھکن چوری ہوجاتے ہیں، کبھی صفائی کے دوران کھول کر چھوڑ دیے جاتے ہیں اور کئی مقامات پر ڈھکن موجود ہی نہیں ہوتا۔

یہ صورتِ حال آئے دن شہریوں، خصوصاً بچوں، معذور افراد اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ بارشوں میں پانی ان کھلے مین ہول کو مکمل طور پر چھپا دیتا ہے، جس سے حادثات کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ننھا ابراہیم اندھیروں اور گھٹن کے ساتھ ساتھ انتظامی اداروں کی مجموعی بے حسی کا بھی شکار ہوا ہے۔ اُس بے حسی کا جو اقتدار اور دولت کے آگے انسانی زندگی، جذبات اور احساسات کو کچھ اہمیت نہیں دیتے۔

حادثے کے بعد میونسپل اداروں پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ مین ہول کئی دن سے کھلا تھا مگر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایسے واقعات پہلے بھی نارتھ کراچی، کورنگی، لیاقت آباد، نیو کراچی اور صدر میں ہوچکے ہیں۔

کراچی میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں، پرانے پل، بدحالی کی شکار عمارتیں، بند نالے اور بڑھتا ہوا ٹریفک دباؤ شہری زندگی کو مسلسل خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

۔

پُلوں کے کمزور حصے، پرانے فٹ پاتھ، ٹوٹی سیڑھیاں، اور گرنے کے قریب عمارتیں کئی حادثات کی وجہ بن چکی ہیں۔ بارشوں میں نالوں کا پانی باہر آ کر سڑکوں کو مزید کمزور کرتا ہے، جبکہ کھلے نالے اور گٹر موت کے کنویں بن جاتے ہیں۔

شہر میں حادثات سے نمٹنے کے لیے چند ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں۔ شہر بھر کے مین ہولز کا ایمرجنسی سروے کیا جائے، چوری سے محفوظ بھاری ڈھکنوں کی تنصیب فوری کی جائے، صفائی عملے کی سخت نگرانی، خطرناک جگہوں پر رکاوٹیں، وارننگ بورڈز اور لائٹس لگائی جائیں اور شہری شکایات کے لیے تیز رفتار نظام بنایاجائے۔

یہ اقدامات نہ صرف شہری جانوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں بلکہ شہر کے انفرااسٹرکچر کی بحالی اور محفوظ بنانے کے لیے بھی لازمی ہیں۔

شہر کا خراب انفرااسٹرکچر، گٹروں کے چوری شدہ یا غائب ڈھکن، سڑکوں پر ناکافی روشنی اور ناکافی نگرانی کی وجہ سے مسائل ہر موسم میں حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ ماہانہ اور ایمرجنسی سروے نہ ہونا، شکایات کا فوری حل نہ ہونا اور حفاظتی اقدامات میں سستی شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ شہری ادارے، میونسپل کارپوریشنز اور متعلقہ محکمے اس مسئلے کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔

خطرناک مقامات پر رکاوٹیں، وارننگ بورڈز، مناسب روشنی اور شہری شکایات کے فوری حل کے نظام کے بغیر یہ مسئلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ شہریوں کی جانوں کا تحفظ اور شہر کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ کیا حکام اب بھی جاگتے ہیں یا نہیں۔

نوٹ: مصنف کی آرا سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Murtaza Wahab

mayor karachi

IBRAHIM

nipa chowrangi

Open Manhole

Karachi Tragedy

Nipa chowrangi incident