ماں کے دودھ کا ہار، انگوٹھیاں اور بالیاں، نیا فیشن ٹرینڈ مقبول کیوں ہو رہا ہے؟
ماں کا دودھ، جو نومولود کی پہلی غذا ہوتا ہے، اب زیورات کی صورت میں پہننا ایک عجیب و غریب مگر جذباتی رجحان بن چکا ہے۔ بریسٹ ملک جیولری، یعنی ماں کے دودھ کو پینڈنٹس، انگوٹھیوں، بالیوں، اور دیگر زیورات کی شکل میں محفوظ کرنا، بظاہر ایک انوکھا مگر تیزی سے ابھرتا ہوا رجحان ہے۔
بنیادی خیال سادہ ہے کہ والدین، خصوصاً مائیں، اپنے بچے کی پیدائش اور دودھ پلانے کے مختصر مگر شدید جذباتی مرحلے کو ایک مستقل یادگار میں بدل رہی ہیں۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں اب ماں کا دودھ خود “میموریل مٹیریل” بن چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تصور نے اچانک سوشل میڈیا سے جنم نہیں لیا۔ بلکہ یہ کہانی شروع ہوتی ہے 2007ء سے۔ جب مغربی دنیا میں ایٹسی (Etsy) جیسے آن لائن پلیٹ فارمز پر دو جیولری بنانے والوں نے ماں کے دودھ سے بنے زیورات متعارف کروائے۔
بریسٹ ملک جیولری کو اصل مقبولیت 2013 کے بعد ملی، جب بلاگز، آن لائن میگزینز اور ماؤں کی کمیونٹیز میں یہ ٹرینڈ متعارف ہونے لگا۔ بھارت میں بھی 2016 کے بعد سے چند خراتین نے اس میدان میں کام شروع کیا، جن میں چنائی اور دہلی کی خواتین شامل ہیں۔
نومولود بچوں میں پائی جانے والی 10 خاص طاقتیں
وقت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ریلز، موم بلاگرز اور ہائپر پرسنلائزیشن کے رجحان نے اسے معمول کی چیز بنا دیا، یہاں تک کہ اب آپ آن لائن نہ صرف یہ زیورات بنوا سکتے ہیں بلکہ ڈی آئی وائے (DIY) کٹس کے ذریعے گھر بیٹھے خود بھی تیار کر سکتے ہیں۔
کلائنٹ چند ملی لیٹر دودھ مخصوص ہدایات کے مطابق کاریگر کو بھیجتے ہیں، جو اسے مختلف کیمیائی یا حرارتی طریقوں سے محفوظ بنا کر ایسے مادے میں تبدیل کرتا ہے جو سیرامک کی طرح مولڈز میں ڈھل سکتا ہے۔ پھر اسی “محفوظ شدہ دودھ” کو سونے، چاندی، یا کاسٹیوم جیولری میں سیٹ کر کے رنگ، شِمر، فلیکس یا نام و تاریخ کے ساتھ کسٹمائز کیا جاتا ہے۔
مناسب دیکھ بھال کی جائے تو یہ زیورات برسوں، بلکہ دہائیوں تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
یہ رجحان صرف ماں کے دودھ تک محدود نہیں رہا بلکہ بچے کے بال، نال، خون، حتیٰ کہ آئی وی ایف کے عمل سے جڑی چیزیں بھی زیورات میں محفوظ کیے جارہے ہیں۔
مشہور شخصیات، مثلاً بھارتی اداکارہ ونی اَرورہ، سوشل میڈیا پر اپنے بریسٹ ملک اور امبلیکل کارڈ سے بنے پینڈنٹس شیئر کر چکی ہیں، جس کے بعد یہ موضوع مزید مین اسٹریم بحث کا حصہ بن گیا۔
کچھ حلقوں میں یہ موضوع بھی زیرِ بحث دیکھا گیا کہ سوال یہ ہے کہ اس قدر ذاتی اور جسمانی شے کو زیور بنانے کی کشش کیا ہے؟ ایک رائے یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں رہتے ہیں جہاں جذبات اور خود کی کہانی (self-narrative) کو سب سے زیادہ ویلیو دی جا رہی ہے۔ شادی کے پھولوں سے ریزن کیپ سیگز بنانے سے لے کر بیگز، جوتوں اور گھڑیوں کو چارمز سے شخصی رنگ دینے تک، جین زی اور ملینئیلز ہر چیز کو “میرا” اور “صرف میرا” بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں ماں کا دودھ کسی معمولی مٹیریل کے بجائے “لکوئیڈ گولڈ” اور ماں کی محنت، جسمانی مشقت، ذہنی دباؤ اور بے خوابی راتوں کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔
بہت سی ماؤں کے لیے یہ زیور ان کے جسم، بچے اور ماں بننے کے سفر کے درمیان ایک خاموش، نجی معاہدہ ہے، “یہ میں تھی، یہ میرا جسم تھا، اور یہ ہمارا مشترکہ وقت تھا۔”
دوسری طرف، ایک مضبوط مخالف بیانیہ بھی موجود ہے جو اسے بے جا جذباتیت، جسمانی حدوں کی مبینہ خلاف ورزی یا “کریپ کلچر” سے جوڑتا ہے۔
نوزائیدہ بچے رات کے وقت زیادہ کیوں روتے ہیں؟
مغرب میں اس رجحان پر ڈاکومنٹری، شارٹس اور وی لاگز بھی بنے ہیں جن میں ماؤں نے اپنے بریسٹ ملک جیولری کے تجربات شیئر کرتے ہوئے یہ بتایا کہ کس طرح قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں، آئی وی ایف کے مشکل سفر، یا پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے دوران دودھ پلانے کی جدوجہد کو وہ ایک مثبت اور طاقتور علامت میں بدلنا چاہتی تھیں۔
یہ رجحان جدید دور کی اس الجھی ہوئی مگر دلچسپ ذہنی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے جہاں جسم، ٹیکنالوجی، جذبات اور مارکیٹنگ ایک دوسرے میں گھل مل رہے ہیں۔
کسی کے لیے یہ ماں کے کردار کو خراجِ تحسین ہے، کسی کے نزدیک حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت،کسی کو اس میں خوب صورتی نظر آتی ہے، تو کوئی اسے محض ‘اوور شیئرنگ’ سمجھ کر نفرت سے دیکھتا ہے۔ شاید یہی اس کہانی کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ یادیں محفوظ کرنے کے ہمارے طریقے بدل رہے ہیں، جسے ایک نسل غیر معمولی یا تکلیف دہ سمجھتی ہے، اگلی نسل کے لیے وہی بات بالکل نارمل اور روزمرہ عمل بن سکتا ہے۔















