پی آئی اے: پاکستان کی قومی ایئر لائن کا سنہری دور

پی آئی اے کا نیٹ ورک ٹوکیو سے نیویارک اور افریقہ سے یورپ تک پھیلا ہوا تھا۔
شائع 23 دسمبر 2025 12:36pm

پاکستان کی قومی ایئر لائن، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے)، نے 1950 میں آپریشنز کا آغاز کیا اور صرف دس سال کے اندر دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شامل ہو گئی۔ مارچ 1962 میں امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی نے پی آئی اے کے ذریعے کراچی کا سفر کیا اور پرواز کے معیار، خدمات اور عملے کے پروفیشنلزم کی تعریف کرتے ہوئے پائلٹ کو گرم جوشی سے گلے لگایا اور کہا ’گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد۔‘

پی آئی اے کے سنہری دور کا آغاز 1959 میں ہوا جب ایئر کموڈور ملک نور خان نے اس کی قیادت سنبھالی۔ اس دور میں پی آئی اے نے بین الاقوامی سطح پر اہم قدم اٹھاتے ہوئے 1960 میں ڈھاکہ، کراچی اور لندن کے درمیان پہلی بار بوئنگ 707 سے فلائٹ شروع کی، اور ایشیا کی پہلی ایئر لائن بن گئی جس نے جیٹ ایئرکرافٹ آپریٹ کیے۔

سنہ 1962 میں پی آئی اے نے نیویارک کے لیے بھی پروازیں شروع کیں، جس سے عالمی شہرت میں اضافہ ہوا۔ اسی دور میں کیپٹن عبداللہ بیگ اور کیپٹن غیور بیگ نے لندن سے کراچی کی پرواز میں چھ گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔

پی آئی اے کی ترقی کے سلسلے میں 1960 کی دہائی میں بوئنگ 707، 1970 کی دہائی میں ڈی سی 10، اور بعد میں بوئنگ 747 اور ایئربس اے 300 جیسے جدید طیارے شامل کیے گئے۔

پی آئی اے ایشیا میں ’بوئنگ 300-737‘ متعارف کرانے والی پہلی ایئر لائن تھی۔

پی آئی اے نے نہ صرف اپنی پروازوں کے معیار میں امتیاز قائم کیا بلکہ غیر ملکی ایئر لائنز کو تکنیکی اور انتظامی معاونت فراہم کرنا بھی شروع کی۔ ایئر چائنا، ایئر مالٹا، چو سون مین ہینگ، فلپائن ایئر لائنز، صومالی ایئر لائنز اور یمنیہ جیسی ایئر لائنز کو طیارے لیز پر دیے گئے۔ پی آئی اے نان کمیونسٹ دنیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے چین کے لیے کمرشل پروازیں شروع کیں۔

پی آئی اے کا نیٹ ورک ٹوکیو سے نیویارک اور افریقہ سے یورپ تک پھیلا ہوا تھا، جس نے پاکستان کے سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنے اور دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے میں مدد کی۔ اس دوران پی آئی اے کے تشہیری الفاظ تھے کہ ’ہر ساتویں منٹ میں پی آئی اے کی ایک پرواز دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر اُترتی یا روانہ ہوتی ہے۔‘

سنہ 2000 کی دہائی میں پی آئی اے کی انجینئرنگ مہارت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور بوئنگ، ایئربس اور جنرل الیکٹرک نے اپنے طیاروں کے پرزے بنانے کے لیے پی آئی اے کو آرڈرز دیے۔

پی آئی اے نے اپنے سنہری دور کے دوران حفاظتی معیار میں بھی نمایاں کارکردگی دکھائی اور 2005 میں آئی او ایس اے اور آپریشنل سیفٹی آڈٹ میں کوالیفائی کرنے والی خطے کی پہلی ایئر لائن بن کر اپنی حفاظت اور آپریشنل معیار کا اعتراف کروایا۔

پی آئی اے کی شاندار خدمات اور عملے کی پروفیشنلزم نے اسے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک معتبر اور قابل اعتماد ایئر لائن کے طور پر ممتاز کیا۔