بونڈائی بیچ فائرنگ: آسٹریلیا میں اسلحے اور احتجاج کے قوانین سخت
آسٹریلیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نیو ساؤتھ ویلز نے بونڈی بیچ میں ہونے والی ہولناک فائرنگ کے بعد اسلحہ اور دہشت گردی سے متعلق قوانین مزید سخت کر دیے۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عوام کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کی پارلیمان نے اسلحہ قوانین اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر مشتمل ایک جامع ترمیمی بل منظور کر لیا۔ یہ بل ایوانِ بالا میں ہنگامی اجلاس کے دوران 18 کے مقابلے میں 8 ووٹوں سے منظور ہوا، جس کے بعد اسے قانون کی شکل دے دی گئی۔
ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کرس منس نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ تمام شہری ان سخت اصلاحات سے متفق نہیں ہوں گے، لیکن حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ ان کے مطابق 14 دسمبر کو بونڈی بیچ پر یہودیوں کی ہنوکا تقریب کے دوران ہونے والی فائرنگ، جس میں 15 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، نے ریاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے۔
ایوانِ زیریں میں حکمران جماعت لیبر پارٹی اور اپوزیشن لبرل پارٹی کی حمایت حاصل رہی، تاہم دیہی علاقوں کی نمائندہ نیشنل پارٹی نے اسلحہ سے متعلق شقوں کی مخالفت کی۔ نیشنل پارٹی کا مؤقف تھا کہ اسلحہ رکھنے کی حد کسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔
نئے قوانین کے تحت ایک فرد زیادہ سے زیادہ چار اسلحہ لائسنس رکھ سکے گا، جبکہ کسانوں کو 10 اسلحے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اسلحہ لائسنس رکھنے والوں کے لیے گن کلب کی رکنیت لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ وزیرِ اعلیٰ کے مطابق یہ قوانین ملک میں سب سے سخت ہیں۔
قانون کے تحت دہشت گرد حملے کے اعلان کے بعد پولیس کو تین ماہ تک احتجاجی مظاہروں پر پابندیاں لگانے کے اضافی اختیارات بھی حاصل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیموں جیسے داعش، حماس یا حزب اللہ کے جھنڈے اور علامات کی عوامی نمائش پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں دو سال قید یا 22 ہزار آسٹریلوی ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب مختلف سماجی اور سرگرم تنظیموں نے ان قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے آئینی چیلنج دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فلسطین ایکشن گروپ، جیوز اگینسٹ دی آکوپیشن اور فرسٹ نیشنز کی قیادت میں بلک کاکس نے مشترکہ بیان میں کہا کہ حکومت بونڈی حملے کو سیاسی اختلاف اور احتجاج کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
وزیرِ اعظم انتھونی البانیزی نے بھی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت ایسے قوانین لانے کا ارادہ رکھتی ہے جن کے تحت نفرت اور تشدد کو فروغ دینے والوں کے خلاف مقدمات چلانا آسان ہوگا، جبکہ ایسے افراد کے ویزے منسوخ یا مسترد بھی کیے جا سکیں گے۔ حکومت اسلحہ واپس خریدنے کی اسکیم پر بھی غور کر رہی ہے۔














