Aaj Logo

اپ ڈیٹ 22 جون 2020 04:47pm

پاکستانی ڈرامے ڈپریشن بڑھا رہے ہیں؟

انسان دماغی تناؤ کو کم کرنے کے لیے اکثر مختلف طرح کے ٹی وی شوز دیکھتا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ کچھ ڈرامے دماغی کیفیت کو بہتر کرنے کے بجائے اس پر منفی اثرات بھی مرتب کرسکتے ہیں۔

اگر پاکستانی ڈراموں کی بات کی جائے تو آج کل ہر دوسرا ڈرامہ اُداسی کی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے۔

ماہرِ نفسیات ڈاکٹر فیصل راشد نے کہا کہ 'انسان جو بھی ڈرامہ دیکھتا ہے اس کے منفی یا مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ انسان بے شمار چیزیں انہی ڈراموں سے سیکھتا ہے۔ کیونکہ وہ اُن تمام چیزوں کو حقیقت سمجھتا ہے۔'

اسی حوالے سے ڈاکڑ فیصل کا کہنا تھا کہ معاشرے میں پائے جانے والے مسائل کی حقیقت ان ڈراموں کے مقابلے  بالکل مختلف ہے۔

دنیا بھر میں اب اس مسئلے کو اُجاگر کیا جا رہا ہے کہ دماغی صحت کے لیے کسی بھی کریکٹر کے منفی اور مثبت دونوں پہلوں کو دیکھانا چاہیے۔

ڈاکٹر فیصل کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دس سالوں میں پانچ آسکر آیورڈز مینٹل ہیلتھ سے متعلق بنائے گے موضوعات کو ملی ہیں۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اسی طرح کے موضوعات پر پاکستانی ڈرامہ انڈسڑی کو سامنے آنا چاہیے۔‘

حالیہ برسوں میں گھریلو ناچاقی پر بنائے گئے ڈراموں کو ناظرین کی جانب سے کافی پسند کیا گیا ہے۔ جن میں "میرے پاس تم ہو"، "دو بول" اور اس جیسے بے شمار ڈرامے شامل ہیں۔

ڈاکڑ فیصل کے مطابق ان کہانیوں پر مبنی ڈرامے ڈپریشن اور حقیقی زندگی کے رشتوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

اسّی کی دہائی میں دھوپ کنارے، تنہائیاں جیسے مشہور ڈرامے لکھنے والی مصنف حسینہ معین کے مطابق 'اب جو بھی ڈرامے بنائے جا رہیں ہیں۔ وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔'

اُنہوں نے کہا کہ جن موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں وہ ہمارے معاشرے کے نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی مثبت پیغام دیا جا رہا ہے۔

دنیا میں ڈپریشن کے مریضوں میں اضافے پر حسینہ معین نے کہا کہ پاکستان جیسے معاشرے میں بیوی اور شوہر کے شادی کے بعد بھی تعلقات رکھنے جیسے بے معنی موضوعات پر ڈرامے بنائے جا رہے ہیں جس سے اس کو دیکھنے والے اس سے غلط مطلب اُخذ کر کے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ بھی یہی ہے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں خواتین پر تیزاب پھیکنے کی واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حسینہ معین کا کہنا ہے کہ جب ان موضوعات پر ڈرامے بنائے جاتے ہیں تو ملزمان کو یہ پتا چلتا ہے کہ جب یہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔

حسینہ معین کے مطابق اُس وقت جب پاکستان کے سرکاری چینل پر کوئی ڈرامہ نشر کیا جاتا تو سڑکیں خالی ہو جاتی تھیں۔ ’مگر اب بچے اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ڈرامہ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ان میں ایسے جملے استعمال کیے جاتے ہیں جو بچوں کو والدین کے سامنے شرمندہ کر دیتے ہیں۔‘

Read Comments