Aaj Logo

شائع 13 جنوری 2023 10:58am

ملک میں دالوں کی قلت کا خدشہ

عالمی منڈی میں دالوں کی قیمت اپنےعروج پر ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں دالوں کی درآمد میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث ملک میں دالوں کی قلت کا خدشہ پیدا ہواگیا ہے۔

کیش مارجن کی ضروریات، درآمدی پابندیوں اور ڈالر کی کمی کے باوجود پاکستان میں رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ یعنی جولائی سے نومبر 2022 کے دوران ریکارڈ مقدار میں دالیں درآمد کی گئیں ہیں۔

اس وقت بھی امپورٹرز مزید درآمدات کا مطالبہ لئے سڑکوں پر بیٹھے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ دالوں کی درآمد یقینی بنانے کیلئے اسٹیٹ بینک ڈالر فراہم کرے۔

ملک میں ٪60 دالیں درآمد کی جاتی ہیں پاکستان دالوں اور پھلوں کی درآمد پر سالانہ 1 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔

اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کو ڈیٹی بحران سے نمٹنے کیلئے مختلف اقدامات کئے ہیں، طلب کم کرنے کیلئے اپریل 2022 میں دالوں کو بھی ٪100 نقد کیش مارجن کی اشیاء والی فہرست میں شامل کیا گیا اور مزید سخت اقدام اٹھاتے ہوئے ڈالر کی راشنگ بھی شروع کردی۔

تجزیئے کے مطابق مالی سال 2017 سے 2021 کے دوران ماہانہ اوسط 85 ہزار میٹرک ٹن دالیں درآمد کی گئیں، جبکہ رواں مالی سال اب تک 6 لاکھ 12 ہزار میٹرک ٹن دالیں درآمد کی جاچکی ہیں۔

نقد مارجن کی کڑی شرط اور سخت انتظامی اقدامات کے باوجود پاکستان میں دالوں کی درآمد میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

عالمی منڈی میں دالوں کی قیمت اپنے عروج پر ہے اورپاکستان میں دالوں کی درآمد میں ایک سال کے دوران ٪40 سے زائد اضافہ دیکھا گیا ہے، جبکہ چنے اور مسور کی مقامی پیداوار میں ٪36 تک اضافے کے باوجود مسور، ماش اور چنے کی دال کی قیمت میں ٪75 تک اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق قوت خرید میں نمایاں کمی، مہنگائی میں شدید اضافے اور معاشی بحران میں بڑی تعداد میں بے روزگاری کے خوف سے پاکستانی کسی نہ کسی طرح پہلے سے کہیں زیادہ دالیں کھارہے ہیں۔

دالوں میں طلب میں اٖضافے کا انتہائی اہم نکتہ افغانستان بھی ہے اور ریاست پاکستان نے لاکھوں افغانیوں کی بھوک مٹانے کا ذمہ لیا ہوا ہے، جبکہ دنیا اسے بین الاقوامی تجارت سے تقریبا منجمد کرکے سزا دیتی رہی ہے۔

Read Comments