Aaj Logo

اپ ڈیٹ 04 فروری 2023 08:23am

آخر بالی ووڈ میں پاکستان کے حوالے سے اتنی بے چینی کیوں؟

اگر بالی ووڈ کی حالیہ فلموں نظر ڈالیں تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بھارت کی فلم انڈسٹری میں پاکستان کا بخار پایا جاتا ہے۔

بالی ووڈ میں آپ کو کوئی ایسی فلم نہیں ملے گی جس میں ولن یا برے کردار میں کسی چینی کو دکھایا گیا ہو اگرچہ ہمارے مشترکہ پڑوسی چین نے لداغ میں 38 ہزار مربع کلومیٹربھارتی اراضی پر قبضہ کرلیا اور وہاں انہوں نے تعمیرات بھی شروع کردیں ہیں لیکن بالی ووڈ فلموں میں تمام برے کرداروں کو پاکستانی دکھایا جاتا ہے جو عام طور پر فوجی وردی پہنتے ہیں اور ہمیشہ مسلمان ہوتے ہیں۔

دی گارجین میں پبلش ہونے والی رپورٹ میں فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ بالی ووڈ نے ہمیشہ بھارت کی سیاسی سوچ کی عکاسی کی ہے، 1950 کی دہائی کی فلمیں نئے آزاد ملک کی اُمید اور رومانس کی آئینہ دار تھیں۔ 70 کی دہائی کا ہیرو طاقتور اور بدعنوانوں کے خلاف لڑنے والا ایک قابل فخر لیکن حق رائے دہی سے محروم آدمی ہوتا تھا۔ 1990 کی دہائی میں ایسے کرداروں پر فلمیں بنیں جس میں ہیرو یا تو دبئی میں کام کرتا یا لندن کے ڈسکوز میں رقص کرتا تھا اور چمکدار مرسڈیز چلاتا تھا لیکن جب سے نریندر مودی اور ان کی دائیں بازو کی جماعت بی جے پی تقریباً نو سال قبل اقتدار میں آئی ہے تو بھارتی فلموں میں تعصب مزید بڑھتا جارہاہے ۔

سال 2018 میں عالیہ بھٹ فلم ’رازی‘ کی وجہ سے خبروں کی زینت بنیں، یہ فلم ایک ایسی خاتون کے بارے میں ہے جو 1971 کی جنگ کے دوران جاسوسی کرنے کے لیے ایک پاکستانی فوجی افسر سے شادی کرتی ہے ۔

سال 2019میں ریلیز کی گئی فلم اڑی- دی سرجیکل اسٹرائیک ایک حقیقی واقعے پر مبنی فلم تھی لیکن اس فلم میں بھی حقائق کو توڑ موڑ کے پیش کیا گیا ۔

یہ سب کچھ ناخوشگوار ہے کیونکہ پاکستانی عوام روایتی طور پر بالی ووڈ فلموں کی مداح ہے کیونکہ بھارتی فلم انڈسٹری کے گانے ہمارے گانوں جیسے ہیں ہمارے پڑوسی ایک جیسی ثقافت کے ساتھ ہماری طرح نظر آتے اور رہتے ہیں۔

یہ بات مشہور ہے کہ بالی ووڈ کے تین بڑے ستارے یعنی تین خانز - شاہ رخ خان ، عامر خان اور سلمان خان سبھی مسلمان ہیں، جیسا کہ بالی ووڈ میں ماضی کے فنکار تھے جن میں دلیپ کمار ، مینا کماری اور بھارتی سنیما کے اصل دل کی دھڑکن سمجھے جانے والے راج کپور بھی پشاور میں پیدا ہوئے۔

بالی ووڈ میں بھارت کے بہت سے مذاہب، تاریخوں اور افسانوں کی کہانیوں کو پیش کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں نے نہ صرف اداکاری کی بلکہ بالی ووڈ کے لیے گانے بنائے، ایک وہ زمانہ تھا جب بالی ووڈ کی سب سے مقبول ترین فلم مغل اعظم، شہنشاہ جہانگیر کے مغل دربار میں بنائی گئی تھی لیکن یہ ماضی کی بات ہے، آج یہ واضح ہے کہ بھارت اپنے پڑوسی پاکستان کے بارے میں دلچسپی لیتا ہے اور تعصب رکھتا ہے۔

اس ماہ شاہ رخ خان نے 4 سال بعد اپنی فلم پٹھان کے زریعے بڑے پردے پر واپسی کی، یہ ایک ایکشن فلم ہے جس نے باکس آفس کے ریکارڈ توڑ دیے لیکن فلم کا آغاز لاہور میں ہوتا ہے جہاں ایک پاکستانی فوجی جنرل کے کردار کو دکھایا گیا، یہ منظر بھی شامل کئے گئے کہ نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا ہے، اس آرٹیکل کے تحت کشمیر، بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست، خودمختاری اور خصوصی حیثیت کی ضمانت دی گئی تھی۔ پاکستانی جنرل اپنی زندگی کے بقیہ سالوں کو ہندوستان کو شکست دینے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور فوری طور پر ایک دہشت گرد کو بلاتا ہے تاکہ بھارت کے خلاف سازش کرسکے ۔

پٹھان فلم کے پلاٹ کا کوئی مطلب نہیں ملتا یہ حقائق سے بلاتر ہے اور اگر آرٹیکل 370 کو کلعدم قرار دیا جاتا ہے تو اس مطلب ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال بھی ایسی ہی ہے لیکن ہم حقائق پر کیوں بات کریں ، ہم کیوں بات کریں کے کمشیری اصل میں کیا سوچتے ہیں؟ بہرحال فلم میں کوئی دلچسپ چیز نہیں ہے۔

فاطمہ بھٹو 5 سال قبل اپنی کتاب کیلئے شاہ رخ خان کا انٹرویو کرچکی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ ٹرول اور مشتعل مظاہرین اکثر مسلمان اداکاروں سے ”پاکستان واپس جانے“ کی درخواست کرتے ہیں، حالانکہ ان فنکاروں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ آج ہندوستان میں، جو کوئی بھی حکومت سے سوال کرتا ہے یا اختلاف کرتا ہے تو اسے ”ملک دشمن“ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں جا کر رہے۔

شاہ رخ خان کے والد نے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ اس کے باوجود شاہ رخ خان نے مودی کی حکومت کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں کہا، جو عالمی سطح پر مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے بعد مسلم مخالف ظلم و ستم کے لیے مشہور ہیں۔

نیشنل رجسٹری آف سٹیزن شپ ایکٹ نے ہندوستان کے 7 لاکھ مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا تھا۔

وزیر اعظم کی سالگرہ کے موقع پر شاہ رخ خان نے نریندر مودی کیلئے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے ملک اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے آپ کی لگن قابل تعریف ہے، آپ کو اپنے تمام اہداف میں کامیابی حاصل ہو اور آپ صحت مند رہیں، یہ بات انہوں نے ایک ایسے شخص کیلئے کہی جس کی نگرانی میں 2002 کے فسادات کے دوران گجرات میں 2000 مسلمانوں کے قتل اور سیکڑوں خواتین کی منظم عصمت دری کی گئی۔

جنوری میں نیٹ فلکس نے مشن مجنوں کو بھی ریلیز کیا جس کی کہانی ایک بھارتی جاسوس کے گرد گھومتی ہے وہ جاسوس پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے جب اس فلم کا ٹریلر ریلیز ہوا تھا تو بھی صارفین نے اس کا مذاق اڑایا تھا لیکن انڈیا میں اس فلم کا موازنہ اداکارہ عالیہ بھٹ کی فلم ’راضی‘ سے کیا جا رہا ہے۔

پاکستانی نیوکلئیر پلانٹ کا مسجد نما گنبد ہو یا سر پر ٹوپی لگائے، کندھوں پر صافہ ڈالے اورآنکھوں میں سرمہ سجائے بالی ووڈ کے روایتی مسلمان، مشن مجنوں ہر لحاظ سے بدترین ثابت ہوئی۔

پاکستانی فلم ساز ٹرانسجینڈر، رومانس، خواتین اور پدرانہ نظام مبنی فلمیں بنا رہے ہیں، اور ایسی موسیقی تیار کر رہے ہیں جو ہمارے اور ہمارے ہندوستانی بھائیوں اور بہنوں کے درمیان تقسیم اور تقسیم پر سوال اٹھاتے ہیں اور اس لیے یہ دیکھنا دوگنا عجیب ہے کہ سرحد کے اس پار کیا ہو رہا ہے، جہاں ثقافت اب بات چیت کو بڑھانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اسے ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

اسی وقت میں جب یہ مضحکہ خیز فلمیں تیار کی جارہی ہیں اور ان کی مارکیٹنگ کی جاتی ہیں تو ہندوستانی حکومت نے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو حکم دیا ہے کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم انڈیا: دی مودی کیوسثن کے کو یوٹیوب سے ہٹا دیں، دستاویزی فلم میں 2002 میں گجرات میں ہونے والے قتل عام کی منظوری دینے میں مودی کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔

Read Comments