Aaj Logo

اپ ڈیٹ 21 مارچ 2023 12:00am

پاکستان کی پہلی فلائی ریسرچ لیب میں تحقیقی عمل شروع ہوگیا

کراچی میں ڈاو یونیورسٹی کے ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج میں قائم پاکستان کی پہلی فلائی ریسرچ لیب میں تحقیقی عمل شروع ہوگیا ہے۔

ڈاؤانٹرنیشنل میڈیکل کالج میں طالبات نے ”ڈریسوفیلا میلانا گیسٹر“نامی مکھی کے ذریعے کزن میرج پر ریسرچ کا آغاز کردیا۔

خاندان میں شادی سے ہونیوالی جنیاتی بیماریوں کی وجوہات کے ساتھ مکھیوں پر مختلف ادویات اورکیمیکل استعمال کرکے کینسر کی وجوہات جاننے پر بھی ریسرچ جاری ہے۔

ڈریسوفیلا میلانا گیسٹرنامی ایک مخصوص مکھی جسے پروں والا چھوٹا انسان بھی کہا جاتا ہے اس مکھی کی خاصیت یہ ہے کہ اسکا جنیاتی سسٹم انسان کے سسٹم سے 60 فیصد مماثلت رکھتا ہے۔اسی لئے ایسی ریسرچ جو انسان پر نہیں کی جاسکتی ان مکھیوں پر کی جارہی ہے۔

لیب کا افتتاح کب ہوا

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائینسز میں پاکستان کی پہلی سرکاری فلائی ریسرچ لیب میں تحقیقی عمل شروع ہوگیا ہے۔ یہ لیب ڈاو یونیورسٹی کے ڈاؤانٹرنیشنل میڈیکل کالج میں دوماہ قبل 20 جنوری 2023 کو قائم کی گئی تھی اسکا افتتاح وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کیا تھا۔

ریسرچ ورک

ایم فل کی طالبہ انوشہ امان اللہ نے آج نیوز کو اپنی ریسرچ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے مکھیوں کے چار ہزار جوڑوں کو کراس کرایا جسکے نتیجے میں انھیں اسقاط حمل کا اضافہ نظر آیا۔

طالبہ انوشہ کے مطابق کہ ہمارے معاشرے میں خاندان میں شادیوں کی روایت عام ہے لیکن اسکے نتیجے میں جنیاتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں ان بیماریوں میں دماغی مسائل، ہاتھ ، پاؤں اور اعصابی کمزوری شامل ہے۔

انوشہ نے تقریباً 4 ہزار ڈریسوفیلا میلانا گیسٹر کا ملاپ اور کراس کروایا (مِس کیرج) ایشو بڑھتا دکھائی دیا جبکہ مکھیوں میں کینسر پیدا کرکے انسانی جسم میں اسکی مماثلت پر ریسرچ بھی کی جارہی ہے۔

ریسرچ ورک

بی ایس بائیوٹیکنالوجی فائنل ائیر کی طالبہ سُکینہ نے کہا کہ وہ ان مکھی کے جوڑوں میں سے ڈی این اے نکالنے اور مرحلہ وار ریسرچ کے ذریعے تبدیلیوں پر کام کررہی ہیں انھوں نے مختلف ادویات بھی ان مکھیوں پر آزمائی ہیں۔

پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مشتاق

ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر مشتاق نے آج نیوز کو بتایا کہ ڈریسوفیلا میلانا گیسٹرانسان کے جنیاتی سسٹم سے 60 فیصد مماثلت رکھتی ہے اور ساتھ ہی انسانوں میں ہونیوالی 75 فیصد بیماریوں کے جینز بھی آپس میں ملتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فلائی ریسرچ لیب میں مکھی پر مختلف ادویات اور کیمیکل استعمال کرکے ان کے سائڈ ایفیکٹس اور کینسر پیدا ہونے کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔

پروفیسر مشتاق کے مطابق جینز ملنے کے اس عمل کو ماڈل آف دی ماڈلز کہا جاتا ہے، دنیا بھر کی تمام لیڈنگ یونیورسٹیز میں کم از کم ایک فلائی لیب لازمی موجود ہے لیکن ہمارے یہاں بہت تاخیر سے لیب کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا۔

انھوں نے کہا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ مختلف ادویات اور کیمیکلز کو ڈریسوفیلا میلانا گیسٹر پر آزما کر اسکے سائیڈ ایفیکٹس کا جائزہ لیا جبکہ کیمیکل اپلائی کرکے اس بات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ اسکے نتیجے میں کینسر پیدا ہوسکتا ہے یا نہیں۔ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیس نے مزید بتایا کہ وہ اس بات کے خواہشمند ہیں کہ فلائی لیب کی تعداد بڑھے اور مکھیوں کی افزائش میں وہ نا صرف خود مختار ہوں بلکہ ڈریسوفیلا کو بیرون ملک سے امپورٹ نا کرنا پڑے کیونکہ ڈریسوفیلا میلانا گیسٹر کی فروخت کرنیوالے ادارے (بلومینگٹن اسٹاف سینٹر) ان مکھیوں کے ایک جوڑے کو 50 ڈالر سے زیادہ قیمت میں فروخت کرتا ہے جبکہ ہر ہفتے ساڑھے چار ہزار جوڑے پوری دینا میں بھیجے جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلائی لیب کا قیام ایک ایسا سفر ہے جس کی منزل نوبل پرائز ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ نوبل پرائز جانداروں پر تجربات کرنے والوں کو ہی ملے ہیں۔

وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال چوہدری نے 20 جنوری 2023 کو اوجھا کیمپس میں ایڈ وانسڈ مالیکیولر جینیٹکس اینڈ جینومکس لیب کے افتتاح اور ڈاؤ فلائی ریسرچ لیب اینڈ اسٹاک اور کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے معائنے کے بعد تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف ہیلتھ کیئر کے شعبے میں انقلاب آئے گا بلکہ صنعت سمیت ہر شعبے میں انقلاب آئے گا اور نئے مواقع پیدا ہوں گے، اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں جنگیں میدان جنگ میں نہیں بلکہ کلاس رومز اور لیبارٹریز میں لڑی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ جس قوم کے کلاس رومز لیبارٹریز مضبوط ہوں گی جنگ اس کے نام رہے گی اور جس قوم کے کلاس رومز اور لیبارٹریز کا حال برا ہوگا وہ بدحال ہو جائے گی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج موسمی تغیرات (کلائمیٹ چینج) کا درپیش ہے۔ اس مشکل چیلنج سے ہم بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے نمٹ سکتے ہیں کیونکہ اسمارٹ ایگریکلچر ہمیں تباہی سے بچا سکتی ہے جو بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور مستقبل میں ہیلتھ کیئر کے شعبے میں بائیو ٹیکنالوجی کینسر کی تشخیص اورعلاج میں بھی معاون ہوگی۔ ہمیں اس شعبے میں بھی اپنی مہارت کو بڑھانا ہوگا ہم بحیثیت قوم پیچھے اس لیے ہیں کہ ہم لرننگ اور انوویشن کے ایکو سسٹم بنانے کے بجائے ”ایگو سسٹم“ میں قید ہیں، جنہوں نے ہماری لرننگ اور انوویشن کا اسٹرکچر نہیں بننے دیا، ہمیں ایگو سسٹم کو توڑنا ہوگا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے پرویز مشرف سے پہلے اپنے دوسرے دور حکومت میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے یونیورسٹیز میں ریسرچ پر ریکارڈ فنڈنگ کی جس کے نتیجے میں جو ریسرچ فیلوز کی کھیپ آئی اس نے پاکستان کے سسٹم کو آج تک سنبھالا ہوا ہے، 2018 میں آنے والی حکومت نے ویژن 2025 جیسے بہت سے منصوبے ختم کر دیئے ، جن کے ختم کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی۔ آج ہمارے بنگلہ دیش اور بھارت سے پیچھے ہونےکی وجہ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے۔ ہمارے یہاں آنے والی عاقبت نا اندیش حکومتیں ملکی استحکام کے لیے بنائی گئی پالیسیز کو اس لیے تبدیل کر دیتی ہیں کہ یہ سابقہ حکومت نے بنائی تھیں۔ دنیا میں کوئی بھی ملک سیاسی استحکام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا جینومک لیب کا آغاز 2020 میں ہوا تھا۔ گذشتہ دور حکومت کے اس اقدام کے فنڈز نہیں روکے اور یہ لیبارٹری بن گئی۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی نے نئے منصوبوں کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے جن توقعات کا اظہار کیا ہے وہ آئندہ کے بجٹ میں پوری ہو جائینگی، گرلز ہاسٹل اور آڈیٹوریم کے منصوبوں کے لیے رقم فراہم کردی جائے گی۔

وائس چانسلر ڈاو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائینسز پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی کے مطابق ایڈوانسڈ جینومک اینڈ جینیٹکس لیب کے قیام کےلیے بنیادی فنڈز تو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فراہم کئے، ڈاؤ میڈیکل کالج کی المنائی نے پچاس لاکھ ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ جدید سینٹر بن جائے گا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینومک ڈپارٹمنٹ سے ہماری بات ہوئی ہے جو ہمارے جینومکس سینٹر کے لیے طلباء و اساتذہ کی تربیت کریں گے اور ایک طالب علم کو کینسر جینومکس میں پی ایچ ڈی بھی کرائیں گے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا میں روزانہ 8 کروڑ افراد کو بھوکا سونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

Read Comments