Aaj Logo

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2023 11:57pm

ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس تنہا استعمال نہیں کرینگے، عدالتی اصلاحات بل قومی اسمبلی میں پیش

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے لیے فوری قانون سازی پر غور کیا گیا اور اجلاس کے اختتام تک کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے بل کے مسودے کی منظوری دے دی۔ نئے قانون کے تحت چیف جسٹس سومو نوٹس لینے کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے بلکہ سوموٹو اور بینچوں کی تشکیل کا کام تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کرے گی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت رات گئے تک جاری رہا جس میں عدالتی اصلاحات بل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کردیا۔

اسمبلی میں بل پیش کرتے ہوئے اعظم تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز آئین کے تابع ہوں گے، مسافر کے سامان سے شیشی نکل آئی، اس پر بھی سو موٹو نوٹس لیے گئے، اجتماعی سوچ کی عکاسی کے لیے کیسز کی تقسیم میں یکسانیت رکھنے کے لیے ایسا طریقہ اپنایا جائے جس سے شفافیت نظر آئے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ 1980 کے رولز بھی آئین اور قانون کے مطابق بنائے گئے، اختیارات کا استعمال ایسے کیا گیا کہ ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا، جس پر سپریم کورٹ کے قوائد کے حوالے سے بہت تنقید ہوتی رہی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اعلی ترین عدالت ہے، آرٹیکل 188 میں نظر ثانی کا اسکوپ بہت محدود ہے، اس عدالت کے بعد کہاں دستک دیں کہ انصاف ملے؟ آرٹیکل 10 اے کے بعد سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل بھی ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست پر رولز کہتے ہیں درخواست پیروی کرنے والے وکیل ہی فائل کر سکتے ہیں، محسوس کیا گیا کہ فرد واحد کو دیے اختیار کی وجہ سے ادارے کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے۔

عدالتی اصلاحاتی بل پر وزیر قانون نے ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے وزارت قانون نے اس بل کی تجویز دی، عدالتی اصلاحاتی بل کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی دیکھے گی، چیف جسٹس کے بعد 2 سینئر ترین ججز کمیٹی میں ہوں گے، کمیٹی معاملہ کم از کم 3 جج کی بینچ کو بھجوائے گی، از خود نوٹس پر 30 دن کےاندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی ہے جب کہ اپیل پر 14 دن کے اندر سماعت ہوگی اور عبوری حکم مانگا گیا ہو تو ایسے معاملات 14 دن کے اندر سماعت کے لیے فکس کرنے ہوں گے۔

##کابینہ کا اجلاس اور نیا قانون

اصلاحات پر مشتمل سمری وزارت قانون کی طرف سے تیار کی گئی ہے، جس میں آئین کے آرٹیکل 184 کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اجلاس میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار فل کورٹ کو دینے کی تجویز بھی زیر غور آئی، اور سپریم کورٹ کے بینچ تشکیل دینے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر بھی غور کیا گیا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے مجوزہ قانون سازی پر بریفنگ دیتے ہوئے عدلیہ کے بے پناہ اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز دی۔

ذرائع کے مطابق قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس کل صبح ہوگا جس کی صدارت چیئرمین محمود بشیر ورک کریں گے، قائمہ کمیٹی کل بل منظور کرکے ایوان میں رپورٹ پیش کرے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا جائے گا جس کی رپورٹ کل ایوان میں پیش ہوگی جب کہ کمیٹی ہی از خود نوٹس کا فیصلہ کرے گی۔

اس کے علاوہ ذرائع کا بتانا ہے کہ قومی اسمبلی بدھ کو اس بل کی حتمی منظوری دے گی جب کہ جمعرات کو سینیٹ میں منظوری کیلئے بل پیش کیا جائے گا۔

اجلاس سے قبل احتیاط

وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اجلاس سے قبل تمام افسران کو باہر نکال دیا گیا، کابینہ اراکین کے موبائل فون بھی باہر رکھوائے گئے۔

کابینہ کے اجلاس سے قبل وفاقی وزیر شازیہ مری کو سیکورٹی اہلکاروں نے روک کر ہینڈ بیگ اور دیگر سامان جمع کروانے کا کہا، جس پر شازیہ مری یہ کہتے ہوئے واپس روانہ ہوگئیں کہ میری غیر حاضری لگا دیں۔

تحریک انصاف کا ردعمل

حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات کیلئے ممکنہ طور پر فوری قانون سازی سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ عدلیہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، قانون سازی کیلئے بحث ہونی چاہئے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت عدلیہ کے ساتھ محاز آرائی نہ کرے، ججز کو دباؤ میں لینے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں قانون سازی دیکھ بھال کر ہونی چاہئے، نئی بننے والی پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنی چاہئے موجودہ حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں ہے۔

قانونی ماہرین کی رائے

حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات کیلئے ممکنہ طور پر فوری قانون سازی سے متعلق ماہر قانون اظہر صدیق نے آج نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اختیار انتظامی ہے، عدالتی نہیں، اس سے عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

اظہر صدیق نے کہا کہ مریم صفدر نے قوم کو بے وقوف بنایا ہوا ہے، اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے عدلیہ پر دباؤ بڑھارہے ہیں۔

ماہر قانون عابد زبیری کا کہنا تھا کہ معلوم نہیں یہ کس طرح قانون سازی کریں گے، 184 کی شق 3 کی پاور تو عدلیہ کے پاس ہے، جوڈیشل پاور کو محدود کرنے کا کوئی بھی قانون آئین سے متصادم ہوگا، عدالت کبھی اس قانون کی توثیق نہیں کرے گی، آپ کوئی قانون نہیں بناسکتے کہ عدالتی اختیارات کو کم کرے، پہلے بھی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔

ماہر قانون عابد زبیری نے کہا کہ عدلیہ میں بہتری کی ضرورت ہے، فل کورٹ کا اختیار چیف جسٹس کو ہوتا ہے، بڑے معاملات میں فل کورٹ بن جائے تو غلط نہیں، کچھ چیزیں آپ تبدیل نہیں کرسکتے، عدلیہ کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔

Read Comments